منگل، 3 مارچ، 2015

شادی کی رات (مکمل کتاب یونیکوڈ میں)

آداب الزفاف
شادی کی رات
جدید اشاعت معہ توثیق وتصحیح

تاليف
عبد الہادی عبد الخالق مدنی

ناشر
المکتب التعاونی للدعوۃ والارشاد وتوعیۃ الجالیات بالاحساء
احساء اسلامک سینٹر,ص ب ٢٠٢٢ ۔  ہفوف۔  الاحساء ۔۳۱۹۸۲
  مملکت سعودی عرب



جمیع الحقوق محفوظة





بسم اللہ الرحمن الرحیم
پیش لفظ
          شادی کی رات انسان کی زندگی کا نہایت پرکیف، نشاط انگیزاور ناقابل فراموش موڑ ہے جس کے آنے سے پہلے انسان اس کے انتظار میں ہوتا ہے اور جانے کے بعد اس کی تلخ وشیریں یادیں سدا خانۂ دل میں محفوظ رہتی ہیں۔ شادی کی رات عموماً انسان کی زندگی کا ایک نیا تجربہ ہوتا ہے اسی لئے مختلف لوگ مختلف انداز میں اپنے اپنے طور پر اس کی تیاری میں جٹ جاتے ہیں۔
           نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں یہ بات مشہور ہے کہ یہ رات جنسی عمل کی رات ہے لہٰذا وہ جنسی معلومات حاصل کرنے کے لئے صحیح وغلط، معتبر وغیر معتبر اور درست ونادرست کی تمیز کئے بغیر تمام ذرائع  استعمال کرتے ہیں۔
          بے شک صحت مند فکر کے حامل حق پسند نوجوانوں کی ایک قلیل تعداد ایسی ہے جو صحیح اور اسلامی شریعت کے مطابق معلومات حاصل کرنا چاہتی ہے لیکن جب انھیں بھی کوئی صحیح ذریعہ دستیاب نہیں ہوتا تو وہ دو راستوں میں سے ایک راہ اختیار کرنے پر مجبور ہوتے ہیں یا تو انھیں جتنی اور جیسی کچھ واقفیت ہے اسی پر اکتفا کریں اور مزید کی خواہش ترک کردیں یا پھر وہ بھی انھیں راستوں پر چل پڑیں جن پر آج کی نئی نسل کی اکثریت چل رہی ہے۔ پہلی راہ اختیار کرنے کی صورت میں لوگ حقیقت سے لاعلمی کی بنا پر بہت سی توہمات اور خرافات کا شکار رہتے ہیں اور دوسری صورت تو انتہائی پرخطر ہے۔
          چنانچہ آج کل نوجوان لڑکے اور لڑکیاں جنسی معلومات جن ذرائع سے حاصل کرتے ہیں ان کا غیر معتبر ہونا ہرکس وناکس کو معلوم ہے۔ ظاہر ہے کہ ریڈیو، ٹی وی، عام اخبارات، جرائد ومجلات، انٹرنیٹ ، بازاری میگزین، ہم عمر نوجوان دوستوں اور سہیلیوں سے حاصل شدہ معلومات کا کیا اعتبار ہے!
          مذکورہ ذرائع کبھی بھی درست معلومات فراہم نہیں کرتے اور دوست اورسہیلیاں خواہ شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ کبھی صحیح معلومات نہیں دیتے۔
          جنسی معلومات کے حصول کا ذریعہ بسا اوقات وہ کتابیں بھی ہوتی ہیں جو بازاروں میں مختلف مقاصد کے تحت عام اور منتشر ہیں، بعض کا مقصد محض تجارت ہے اور بعض کا ہدف فحش کاری کا فروغ ہے۔ ان کتابوں میں جنسی معلومات نہایت ہیجان انگیز طریقے سے پیش کی جاتی ہیں جن سے جنسی جذبات میں اشتعال پیدا ہوتا ہے اور قاری انحراف کا شکار ہوجاتا ہے۔
           اسی طرح بعض لوگ یورپ وامریکہ اور دیگر اقوام مغرب کی مطبوعہ میگزینیں خرید کر ان کے جنسی مضامین سے معلومات حاصل کرتے ہیں ۔ ان کا معاملہ اوپر ذکر کئے گئے دیگر بازاری سستی اور سطحی کتابوں سے زیادہ برا ہے کیونکہ اہل مغرب جنسی معاملہ میں جملہ شرعی وعقلی اور سماجی وتہذیبی سرحدوں کو پار کرچکے ہیں۔ ان کے یہاں شرم وحیا اور غیرت نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی ہے۔
          کچھ لوگ جنسی معلومات حاصل کرنے کے لئے ویڈیو فلمیں اور سی ڈیز دیکھتے ہیں،یہ بھی نہایت قبیح،  گندہ اور ضرر رساں طریقہ ہے۔
          ظاہر ہے کہ جب اس موضوع پر دینی کتابیں دستیاب نہیں ہوں گی تو عوام مذکورہ وسائل وذرائع ہی کا سہارا لیں گے۔ علماء کرام کی خاموشی اور کوتاہی نوجوانوں کو ان منحرف راستوں پر لے جائے گی جس کا انجام کار نہایت سنگین اور بھیانک ہے۔
          محدث عصر شیخ محمد ناصر الدین ألبانی رحمہ اﷲ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں۔ آپ نے اس موضوع پر «آداب الزفاف فی السنة المطهرة»([1])کے نام سے ایک بے مثال تصنیف کی ہے۔ ایسے ہی ایک دوسرے جید محقق عالم شیخ محمود مہدی استنبولی رحمہ اﷲ اپنی کتاب «تحفة العروس» کے اندر اس موضوع کو زیر بحث لائے ہیں جس کا اردو ترجمہ استاد محترم نصیراحمدملی رحمہ اللہ کے قلم سے ہوچکاہے۔ ہم نے ان دونوں کتابوں سے استفادہ کیا ہے۔ جزاهم اﷲ تعالی خیر الجزاء۔
          دراصل شیخ البانی رحمہ اﷲ سے ایک صاحب خیر نے درخواست کی کہ ان کی شادی کے موقعہ پر شب زفاف سے متعلق ایک مختصر ومدلل رسالہ تصنیف کریں جو ان کے لئے رہنما اور گائیڈ کا کام دے۔ وہ اسے چھپواکر اپنی شادی کی تقریب میں مفت تقسیم کریں گے تاکہ دوسرے بھی اس سے مستفید ہوں۔ آں موصوف کی درخواست پر شیخ البانی رحمہ اﷲ نے یہ کتاب تصنیف فرمائی۔ وقتی طلب پر کام ہوا مگر اس کا فائدہ دائمی رہے گا۔
          آج شادی کے موقعہ پر ویڈیو گرافی، بینڈ باجے، قوالیاں الغرض اسراف وتبذیر کی ساری حدیں توڑدی جاتی ہیں اور خوشی کے نام پر بے شمار شریعت کی خلاف ورزیاں کی جاتی ہیں۔ ایسے موقعہ پر لوگوں کی معروف روش سے ہٹ کرجب ایک خیرپسند شخص نے علامہ البانی رحمہ اﷲ سے اس قدر نیک خواہش کا اظہار کیا تو آپ نے اسے بصدمسرت قبول فرمایا۔ کیا یہ مناسب نہیں کہ ہم بھی شادی کی محفل کی مناسبت سے کوئی مفید اصلاحی کتاب چھپواکر مہمانوں میں تقسیم کریں اور شادی کے دیگر مصاریف واخراجات کی طرح اسے بھی دعوت اور حق ضیافت میں شمار کریں۔
          کتنا مبارک عمل ہے کہ ایک شخص اپنی یا اپنے بیٹے یا اپنے کسی قریبی عزیز کی شادی کے موقعہ پر کوئی دینی رسالہ یا کتابچہ چھپوائے اور اسے مفت تقسیم کرے۔ ایسے شخص نے ایک قابل اتباع اور لائق اقتدا سنت حسنہ جاری کی۔ مٹھائیوں کی مٹھاس تو جلد ہی مٹ جائے گی، طعام ولیمہ کی لذت لوگ جلد بھول جائیں گے لیکن کتاب یادگار رہے گی جب تک لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے اس کا اجروثواب جاری رہے گا۔
          زیر نظر رسالہ کی تصنیف کا باعث یہ ہوا کہ اردو زبان میں ہمارے ناقص علم کی حد تک اس موضوع پر مختصر یا متوسط حجم کی کوئی کتاب نہیں ہے جبکہ اس کی ضرورت واہمیت سے آپ بخوبی واقف ہوچکے ہیں۔ اس موضوع پر تالیف سماج و معاشرے اور نوجوانوں کی ایک اہم ضرورت ہے۔گرچہ اس وقت دل ایک عجیب وغریب نفسیاتی کشمکش کا شکار ہے لیکن لوگوں کی مصلحت مجبور کرتی ہے کہ لکھا جائے۔ اگر ہر کوئی اس موضوع پر خاموش رہے تو لوگ کس طرح حقیقت جان سکتے ہیں اور کیسے انحرافات سے محفوظ رہ سکتے ہیں!۔
           ہم نے چار وناچار اپنے نفس پر زور ڈال کر نہایت تنگدلی کے ساتھ اس موضوع کو اختیار کیا ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ جنسی تعلق سے کچھ باتیں کھل کر سامنے رکھی جانی چاہئے تاکہ نوجوانوں کے مسائل کا بہترین اور عمدہ حل پیش کیا جاسکے اور انھیں منحرف اور پرپیچ راستوں سے بچاکر صراط مستقیم پر گامزن رکھا جاسکے۔
           ہم نے اس کتاب میں مختلف انداز کے متعدد واقعات ذکر کئے ہیں کیونکہ قصے دلچسپ وپرلطف ہونے کے ساتھ ساتھ یاد رہا کرتے ہیں ۔ طول طویل نصیحتیں اور واعظانہ کلمات بھول جایا کرتے ہیں لیکن قصے یادداشت کے کسی خانہ میں مضبوط جگہ بنا کر ذہن نشین ہوجاتے ہیں۔
          اس کتاب کا پہلا ایڈیشن دار الاستقامہ اٹوابازار کے زیرنگرانی اور خلیق دارالمطالعہ کے زیر اہتمام ٢٠٠٥ء  میں شائع ہوااور الحمدﷲ اسے کافی پذیرائی اور مقبولیت حاصل ہوئی۔پھر islamhouse.com  نے اپنی ویب سائٹ پر شائع کیا اور انٹرنیٹ کے ذریعہ ہزاروں لوگوں نے فائدہ اٹھایا،  ناچیز کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ اس معمولی کاوش کو نوجوانوں اور عام قارئین میں اس قدر زبردست پذیرائی اور عظیم الشان مقبولیت حاصل ہوگی، اﷲ تعالیٰ  دشمنوں کی سازشوں اور حاسدوں کی نظربد سے محفوظ رکھے اور اسلام اور مسلمانوں کی زیادہ سے زیادہ خدمت کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔
          زیرنظر اشاعت اس کا جدید ایڈیشن ہے جو اپنی سابقہ اشاعتوں سے مفیدتر ہے، اس کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ کتاب کے اندر ذکر کئے گئے واقعات اور احادیث کی مزید توثیق کی گئی ہے، ان کے تفصیلی حوالے دیئے گئے ہیں نیز تحقیق کی بنیاد پر حسب ضرورت اصلاح وترمیم بھی کی گئی ہے جس کی بناپر ان شاء اللہ عوام الناس اور طلبہ کے علاوہ اہل علم بھی اس سے استفادہ کرسکتے ہیں۔
رب کریم سے دعا ہے کہ وہ اس کتاب کو نوجوانوں کی اصلاح کا ذریعہ ، دین ودنیا میں خیر کا باعث اور مفید بنائے، اسے فروغ عطا فرمائے اور قبولیت عامہ سے نوازے۔ آمین
دعاگو
عبد الہادی عبد الخالق مدنی
کاشانۂ خلیق ۔اٹوابازار۔ سدھارتھ نگر۔ یوپی۔ انڈیا
داعی احساء اسلامک سینٹر ۔ سعودی عرب
موبائیل:  0509067342 (00966)
ای میل: abdulhadee72@hotmail.com



دولہے کے لئے چند نصیحتیں
          شادی کی رات پر تفصیلی گفتگو کرنے سے پہلے دولھے کے لئے چند نصیحتیں پیش کردینا مناسب ہے۔
          یہ بات معلوم ہے کہ دولہا ایک مرد ہوتا ہے اسی لئے طبعی طور پر زیادہ ہوشیار، زیادہ عقلمند، زیادہ باحکمت اور زیادہ باشعور ہوتا ہے، بہت سے معاملات کو ازخود سمجھ لیتا اور بہت سی مشکلات کو ازخود حل کرلیتاہے۔ اسے نصیحت کی زیادہ ضرورت نہیں ہوتی۔ شاید اسی لئے تاریخی اور ادبی کتابوں میں دولہے کے لئے بہت کم نصیحتیں پائی جاتی ہیں پھر بھی جو واقعات اور نصیحت کی باتیں مل سکی ہیں کافی دلچسپ، پرلطف اور مفید ہیں۔
          پہلا واقعہ:
          علی t سے مروی ہے کہ جب انھوں نے فاطمہ rسے نکاح کے لئے ان کے والد محترم نبی رحمت e کو پیغام دیا تو اﷲ کے نبی e نے ان سے حسن معاشرت اور حسن صحبت کی شرط لگائی([2]) ۔
          آپ e نے کوئی طویل گفتگو نہ کی، نہ ہی کوئی وعظ فرمایا بلکہ فقط چند ایسے جامع ومانع الفاظ استعمال کئے جن میں وہ سب کچھ آگیا جو ایک باپ اپنے داماد سے اپنی بیٹی کے لئے چاہتا ہے۔ ایک باپ یہی تو چاہتا ہے کہ جو مرد اس کی بیٹی کا شوہر بنے وہ اس کے ساتھ اچھے انداز میں رہے، اس کے حقوق کی نگرانی وپاسبانی کرے اور اس کے حقوق ادا کرتے ہوئے اس کے ساتھ حسن معاشرت کا رویہ اپنائے۔
          دوسرا واقعہ:
          صعصعہ بن معاویہ نے ابن الظرب کی بیٹی عمرہ کو پیغام نکاح دیا۔یہی عمرہ ہیں جن کو بعد میں تاریخ میں  ام عامر بن صعصعہ کے نام سے شہرت حاصل ہوئی۔ ابوعمرہ نے صعصعہ کا پیغام نکاح قبول کیا اور اس وقت ایک مختصر اور زریں نصیحت کی، انھوں نے کہا:
“صعصعہ تم میرے جگر کا ٹکڑا طلب کرنے  آئے ہو ، تم میری بچی پر رحم کرنا --------------  نیک شوہر (سگے)باپ کے بعد (نیا )باپ ہوتا ہے”([3])۔
          اس مختصر سی نصیحت میں ابو عمرہ نے بہت کچھ کہہ دیا۔ اس نے یاد دلایاکہ صعصعہ تم کوئی سامان مثلا ریڈیو، ٹیلی ویزن یا کمپیوٹر نہیں طلب کرنے آئے ہو اور نہ ہی کوئی حیوان مثلا گائے بکری ، دنبہ یا اونٹ طلب کرنے آئے ہو بلکہ تم میرے کلیجہ کا ٹکڑا، میرے خون کا ایک حصہ، جانِ پدر، لخت جگر اور نورِنظر کا سوال کرنے آئے ہو ۔ اگر میں اپنی لخت جگر تمھارے حوالہ کردوں تو اس کا خیال رکھنا اور اس کے ساتھ رحم وشفقت کا برتاؤ کرنااور یاد رکھنا کہ ایک شوہر کو باپ کی طرح ہونا چاہئے ۔ باپ اپنی بیٹی کے ساتھ جیسا سلوک کرتا ہے ایسے ہی ایک شوہر کو بھی ہونا چاہئے۔ ایک باپ اپنی بیٹی کی ہرتکلیف اور ہر دکھ درد پر تڑپ جاتا ہے اور اسے دور کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ عام حالات میں اس کی خوشی اور آرام وراحت کے لئے ہرسامان مہیا کرتا ہے ۔ اس کے لئے غیرت مند ہوتا ہے ۔ اس کی پاسبانی ونگرانی کرتا اور ہر شر ومصیبت سے اس کی حفاظت کرتا ہے۔اس کا ہرطرح خیال رکھتا ہے ۔ بیمار پڑے تو علاج کرتا اور پوری طرح آرام دیتا ہے۔ اسی طرح ایک شوہر کو بھی باپ کی طرح غیرت مند، باپ کی طرح محافظ وپاسبان، باپ کی طرح  حمایت ورعایت اور دیکھ ریکھ کرنے والا، باپ ہی کی طرح دکھوں اور مصیبتوں میں تڑپ جانے والا، اپنی طاقت بھر ہرطرح کا آرام پہنچانے میں کوشاں اور سدا خوش وخرم دیکھنے کا آرزومند ہونا چاہئے۔
          اگر مذکورہ نصیحت کے مطابق عمل کیا جائے اور ایک شوہر اپنی بیوی کا اسی طرح خیال رکھے جس طرح ایک باپ اپنی بیٹی کا خیال رکھتا ہے توگویا ایک عورت کی زندگی میں شادی سے کوئی خاص تبدیلی نہیں ہوگی صرف گھر تبدیل ہوگا لیکن طور طریقے اور آرام وراحت کے سارے اسباب پہلے ہی کی طرح میسر رہیں گے۔ وہ نئے گھر میں آکر بھی ویسے ہی خوش وخرم رہے گی اور ویسے ہی چہکتی رہے گی جیسا کہ پرانے گھر میں تھی۔
          تیسرا واقعہ:
          عثمان بن عنبسہ نے عتبہ بن ابی سفیان  کی بیٹی کو پیغام نکاح دیا ، عتبہ ان کے چچا تھے اور منگیتر ان کی چچیری بہن۔ عتبہ نے عثمان سے کہا: بھتیجے تم تو میرے نہایت قریبی عزیز اور میرے نزدیک بڑے معزز ہو، میں تمھاری طلب کیسے رد کرسکتا ہوں اور تمھیں خالی ہاتھ ناکام ونامراد کیسے واپس لوٹاسکتا ہوں لیکن میری ایک بات سنو! یاد رہے کہ جس طرح تم میرے عزیز ہو ویسے ہی وہ بھی میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔ تم اس کی عزت کرنا، اس کی توہین سے بچنا، ہر جگہ اس کے باپ ، اس کے بھائیوں اور اہل خاندان کی تعریف وستائش کرنا۔ اگر تم نے ایسا کیا تو تمھاری عزت ہماری نظروں میں اور بڑھ جائے گی اور تمھارا قد اونچا ہوجائے گا، اس کے برخلاف اگر تم نے ہماری بے عزتی اور بدنامی کی تو تمھاری عزت ہماری نظروں سے بھی گرجائے گی اور اس کی نظروں سے بھی اور تمھارا قد پستہ ہوجائے گا نیز تمھاری شخصیت داغدار ہوجائے گی([4]
          مذکورہ واقعات کو سامنے رکھ کر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ایک باپ اپنی بیٹی کے لئے اپنے داماد سے مندرجہ ذیل اخلاق چاہتا ہے :
          ١۔ اس کی بیٹی کے ساتھ اچھے انداز میں گذر بسر کرے۔
          ٢۔ اس کی عزت وتکریم کرے۔
          ٣۔ اس کو آرام وراحت پہنچائے اور اسے اپنے چمن کی خوشبو بنائے۔
ایک باپ اپنے داماد سے اس سے زیادہ کچھ نہیں چاہتا۔



دولہن کے لئے چند نصیحتیں
دولہن بنناگڑیا اور گڑے کا کوئی کھیل نہیں وہ ایک عظیم ذمہ داری کا نقطۂ آغاز ہے۔ دولہن کو چاہئے کہ وہ اپنے شوہر کی خدمت اور اس کے حقوق کی رعایت کی ذمہ داری کو کبھی فراموش نہ کرے۔ بے جا غیرت اور شک وشبہ میں نہ پڑے۔ صفائی ستھرائی، زیب وزینت، بناؤ سنگار، خوشبو وغیرہ کا ہمیشہ خیال رکھے۔ صفائی ستھرائی میں ان امور کی بڑی اہمیت ہے جنھیں کتب احادیث میں سنن فطرت کے عنوان سے ذکر کیا گیا ہے۔
ابو ہریرہ t کی حدیث ہے کہ نبی e نے فرمایا :
«پانچ چیزیں فطرت کی ہیں : 1 ختنہ، 2 زیر ناف مونڈنا ، 3مونچھیں کترنا، 4 ناخن کاٹنا ، 5 بغل کے بال اکھیڑنا »([5]
          ختنہ مردوں پر واجب اور عورتوں کے لئے مستحب ہے۔ زیر ناف مونڈنے ، مونچھیں کترنے ، ناخن کاٹنے اور بغل کے بال اکھیڑنے میں چالیس دن سے زیادہ تاخیر کرنا حرام ہے۔
          صفائی کے ساتھ ساتھ عطر اور خوشبو کا استعمال الفت ومحبت پیدا کرنے میں بیحد موثر ہے۔ جس طرح عورت اپنی پوشاک اور زیورات پر توجہ دیتی ہے تاکہ نظر پڑتے ہی دل میں کشش پیدا ہو ایسے ہی اسے خوشبو پر بھی توجہ دینی چاہئے تاکہ ناک میں خوشبو پہنچتے ہی نہ صرف دل لپک اٹھے بلکہ ایک ہیجان برپا ہوجائے۔
          دولہن کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اس کی عزت اس کے شوہر کی عزت ہے اور اس کو سماج میں وہی مقام حاصل ہوگا جو اس کے شوہر کو حاصل ہے۔ اگر اس کا شوہر محترم ومعزز ہے، صاحب حسب ونسب ہے ، لوگوں کے درمیان اچھی نظروں سے دیکھاجاتا ہے تو یہی معاملہ اس کی بیوی کے ساتھ بھی ہوگا لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس ہے تو نتیجہ بھی برعکس ہوگا۔ لہٰذا کوئی عورت اگراپنے آپ کو پوری طرح شوہر کے برابر سمجھتی ہے تو یہ اس کی سنگین غلطی ہے۔ اسی غلط فہمی کے نتیجہ میں کچھ عورتیں بعض اوقات ایسے الفاظ کا استعمال کرتی ہیں جن کا استعمال انھیں نہیں کرنا چاہئے مثلا وہ اپنے شوہر سے کہتی ہیں کہ آپ کو میرے احترام اور میرے رتبے کا کوئی خیال نہیں رہتا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ سماج میں بیوی کا درجہ ومرتبہ اس کے شوہر کی حیثیت کے اعتبار سے ہی متعین ہوتا ہے اور ہرمرد کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اسے معاشرے میں ایک نمایاں مقام حاصل ہو اور اس کے اہل وعیال کی عزت ہو اور اسے ہر مجمع میں سرفرازی اور سرخروئی حاصل رہے۔
          ایک عورت اپنا قصہ بیان کرتی ہے کہ اس نے ایک مشہور شخصیت سے شادی کی اور کچھ دنوں کے بعد ان دونوں میں کسی بات پر اختلاف ہوگیا چنانچہ عورت نے اس سے طلاق طلب کرلی۔ عورت کا بیان ہے کہ وہی لوگ جو پہلے اس کی دعوتیں کیا کرتے تھے ، اسے اپنے گھر پر بلاکر میزبانی کرتے تھے ، عزت دیتے تھے، طلاق کے بعد وہ سب کی نگاہوں میں اجنبی بن گئی ، اس کا کوئی پرسان حال نہ رہا۔ حقیقت واقعہ یہ ہے کہ بیوی کو سماج اور معاشرے میں اس کے شوہرکے مقام ومرتبے کے لحاظ سے ہی عزت ملتی ہے۔
          دولہن کے لئے ایک اہم وصیت وہ بھی ہے جو ابوالاسود دؤلی نے اپنی بیوی کو نصیحت کرتے ہوئے اشعار میں کہے ہیں:
خُذِ العَفْوَ مِنِّي تَسْتَدِيمي مَوَدَّتِي
وَلاَ تَنْطِقِي فِي سَوْرَتِي حِينَ أَغْضَبُ([6])
(میں تجھے جوفاضل چیز دے دوں اسے لے لے, اسی میں ہماری محبت کی بقا ہے, اور میرے غصہ کی حالت میں اپنی زبان بند رکھ، کچھ مت بول)۔
          غصہ کی حالت میں بھی شوہر کے دل میں بیوی کی محبت ہوتی ہے لیکن اس حالت میں کوئی تکلیف دہ یا اذیت ناک بات جب شوہر کو پہنچ جاتی ہے تو ناقابل برداشت ہوجاتی ہے کیونکہ حالت غضب میں تکلیف اور محبت اکٹھا نہیں رہ سکتے اگر محبت زیادہ ہے تو وہ خود باقی رہے گی اور تکلیف کو بھگادے گی اور اگر تکلیف زیادہ ہوئی تو وہ خود دل پر قابض ہوجائے گی اور وہاں سے محبت کو نکال بھگائے گی۔یہی وجہ ہے کہ طلاق کے اکثرو بیشتر واقعات غصہ کی حالت میں صادر ہوتے ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ شوہر غصہ میں آیا بیوی نے تکرار کی ، بات آگے بڑھائی، بات پر بات بڑھتی چلی گئی اور طلاق تک نوبت جاپہنچی۔ اس سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ شوہر جب غصہ کی حالت میں ہو تو بیوی چپ سادھ لے اور پوری طرح خاموشی اختیار کئے رکھے۔ پھر جب غصہ ٹھنڈا ہوجائے اور شوہر اپنی طبعی حالت پر لوٹ آئے ، اس کا دل ودماغ پرسکون ہوجائے تواس مسئلہ پر ازسرنو گفتگو کرے۔



شادی کی رات سے متعلق مشہور
چند بیہودہ واقعات
          شب زفاف پر گفتگو سے پہلے آئیے ہم اپنے سماج اور معاشرے میں شہرت یافتہ چند بیہودہ واقعات کا جائز ہ لیتے ہیں([7]
پہلا بیہودہ واقعہ:
           ایک دوست نے اپنے دوسرے دوست سے اپنی بیوی کی جفاؤں کا شکوہ کیا، بیوی بہت نافرمان ہے، سر چڑھی ہے، اس کی خدمت نہیں کرتی، اس کی کوئی بات نہیں مانتی وغیرہ وغیرہ۔ دوست نے کہا: یار ایسا کیوں نہیں کرتے جیسا میں نے کیا تھا۔ دوست نے پوچھا: تم نے آخر کیا کیا تھا؟ اس نے کہا: پہلی رات جب میری بیوی میرے کمرے میں آئی ، کھانا تیار تھا، اس نے مجھے کھانا پیش کیا ، اسی دوران ایک بلی آپہنچی ، میں نے اسے بھگانے کے لئے ڈانٹا لیکن بلی نہ بھاگی تو میں نے چھری اٹھا کر اسے وہیں ذبح کردیا تاکہ میری نئی نویلی دولہن کو معلوم ہوجائے کہ میری بات پختہ اور اٹل ہوتی ہے ، اگر میری بات نہیں مانی گئی تو اس کا نتیجہ بہت بھیانک اور انجام بڑا سنگین ہوتا ہے۔ میں اپنے نافرمان کو سخت ترین سزا دیتا ہوں چنانچہ وہ پہلی رات ہی خوفزدہ ہوگئی اور اب جو کچھ کہتا ہوں فوراً بے چون وچرا مان لیتی ہے۔ سرتسلیم خم ہے جو مزاج یار میں آئے۔ دوسرے دوست نے کہا : یار مشورہ اچھا ہے، قابل عمل ہے لہٰذا اب اس نے بھی اس پر عمل کرنا چاہا۔ اپنے گھر پہنچا، کھانا تیار تھا، دسترخوان پر بیٹھا، ادھر سے بلی بھی آپہنچی، اس نے چھری اٹھائی اور گھیر گھار کر کسی طرح بلی کو قتل کردیا، بیوی نے یہ ماجرا دیکھ کر کہا : میاں جی!بلی کا قتل پہلی رات کام دیتا ہے بعد میں نہیں۔
سوچئے ! کیا یہی مردانگی ہے کہ پہلی ہی رات سے بیوی کو خوفزدہ کرکے رکھا جائے اور اس کے ساتھ سختی ودرشتی کا معاملہ کیا جائے۔
دوسرا بیہودہ واقعہ:
          بعض ملکوں میں یہ بیہودہ رسم پائی جاتی ہے کہ شادی کی رات دولہن اپنے حجلۂ عروسی میں ہوتی ہے اور شوہر کو باہر مختلف مقامات کی سیر وتفریح کرائی جاتی ہے۔ رات کا ایک طویل حصہ گذر جانے کے بعد شوہر کو دولہن کے کمرے میں بھیجا جاتا ہے۔ دولہا اپنے ساتھ ایک ڈنڈا یا لاٹھی لے کر جاتا ہے اور دولہن کو خوب زد وکوب کرتا اور پیٹتا ہے جب وہ بے چاری چیخ چلاکر، بلک کر اور تڑپ کرنیم جان ہوجاتی ہے ، اس کی چیخ وپکار سن کر اس کا مددگار، حمایتی اور فریادرس کوئی نہیں پہنچتا اور وہ اپنے ہوش وحواس کھوبیٹھتی ہے پھر لاٹھی والے مرد جناب دولہا صاحب اس پر حملہ آور ہوتے ہیں اور اپنی حسب منشا اسے نوچتے بھنبھوڑتے، اس کی بکارت زائل کرتے اور اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ جب صبح کا سورج نکلتا ہے تو حضرت دولہا بھی اپنے حجلۂ عروسی اور خوابگاہ سے خون سے رنگین ایک رومال جو پہلے سفید تھا لے کر برآمد ہوتے ہیں اور لوگوں کو اپنی مردانگی کی دلیل کے طور پراسے پیش کرتے ہیں۔ واہ کیا دولہا ہے جس نے اپنی قوت مردانگی کے جوہر دکھاتے ہوئے اس کی بکارت زائل کی اور پردۂ بکارت کے پھٹنے سے جو خون نکلا اسے سفید رومال میں محفوظ کرلیا!! پھر دولہا دولہن کی تعریف میں گیت گائے جاتے ہیں ، دولہن کے باکرہ ہونے کی اور دولہے میاں کی مردانگی کی تعریفیں کی جاتی ہیں۔
تیسرا بیہودہ واقعہ:
          ایک شخص شادی کی رات جب اپنی بیوی کے پاس پہنچا تو اس نے ایک ایک کرکے اس کے تمام کپڑے اتار دیئے ، تب وہ بھاگنے لگی کبھی گھر کے ایک گوشے میں پناہ لیتی اور کبھی دوسرے گوشے میں چھپنے کی کوشش کرتی مگر مرد اس کا پیچھا کرتا رہا حتی کہ اسے اپنی مضبوط بانہوں میں دبوچ لیا اور اسے اپنے قابو میں کرکے خوب روندا بالآخر بکارت زائل کردیا۔
          یہ قصہ سن کر چڑیاگھر کی یاد آجاتی ہے جہاں سانپوں کی خوراک کے لئے چوہے ڈالے جاتے ہیں۔ چوہا سانپ کی گرفت سے بچنے کے لئے ادھر ادھر بھاگتا ہے۔ اس کونے اور اس کونے میں چھپتا پھرتا ہے لیکن سانپ اس کا پیچھا کرکے بالآخر اسے اپنی گرفت میں لے لیتا اور اسے اپنے دم میں لپیٹ کر نیم جان کردیتا ہے پھر اسے اپنا لقمۂ تر بنالیتا ہے۔ ذرا غور کیجئے کہ چڑیا گھر کے سانپ اور چوہے کے قصے اور مذکورہ دولہن دولہے کے قصے میں کیا فرق ہے؟ بتایا جاتا ہے کہ اس واقعہ کے چند ماہ بعد میاں بیوی میں جدائی ہوگئی کیونکہ پہلی رات کا اثر مستقبل پر پڑنا لازمی ہے۔ یہ ایسی اہم رات ہے جس کے اندر انسان کو کسی بھی بیجا حرکت سے باز رہنا چاہئے۔
ان تینوں قصوں پر غور کیجئے اور بتائیے :
2کیا یہی مردانگی ہے جو آپ نے ان تینوں قصوں میں دیکھا؟
2کیا یہی مردانگی ہے کہ آدمی پہلی ہی رات اپنی بیوی کو دہشت زدہ کردے تاکہ آئندہ وہ ہمیشہ سہمی سہمی رہے؟
2کیا یہی مردانگی ہے کہ بیوی کو اپنا شریک حیات تصور کرنے کے بجائے ایک خدمتگار مشین تصور کیا جائے اور اس کے ساتھ انسانیت کا سلوک کرنے کے بجائے مشین یا حیوان جیسا سلوک کیا جائے؟
2کیا یہی مردانگی ہے کہ آدمی بیوی کے سامنے ہمیشہ اکڑا رہے؟ کبھی اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نہ آئے؟ ہمیشہ پیشانی پر سلوٹیں رہیں؟
2کیا یہی مردانگی ہے کہ آدمی کبھی اپنی بیوی کی کوئی طلب پوری نہ کرے؟ اوراس کی بیوی کبھی اس سے کسی قسم کے سوال اور مطالبے کی ہمت نہ کرسکے ؟ اس کے سامنے اپنی کسی خواہش کا ذکر نہ کرسکے؟
نہیں ، ہرگز نہیں۔ بلکہ حقیقی مردانگی یہ ہے کہ:
           شوہر کا دست شفقت دائمی طور پر بیوی کے سر پر رہے۔ وہ اپنا آغوش محبت اس کے حسین اور نرم وگداز جسم کے لئے سدا پھیلائے رکھے۔ وہ اپنا آہنی بازو اس کی حفاظت وپاسبانی کے لئے ہمیشہ تیار رکھے۔ اس کے رخ زیبا اور گلاب کی پنکھڑی جیسے ہونٹوں کے لئے اپنے پیار کے بوسے نچھاور کرے۔ وہ اگر بیمار پڑجائے تو اس کو اپنے ہاتھوں سے دوا پلائے، قسم قسم کے مشروبات پلائے اور خود اپنے ہاتھوں سے اٹھاکر اسے لقمے کھلائے۔ سچ پوچھو تو یہ مردانگی ہے۔
          میاں بیوی کو باہم نہایت نرم خو، شیریں ادااور شفیق ومہربان ہونا چاہئے البتہ جب اﷲ کی حرمتوں کو چاک کیا جائے یا جب دامن کرامت پر حرف آنے کی بات ہو یا جب عزت وآبرو کا معاملہ ہو تو اس وقت نہایت سخت اور غضبناک ہونا چاہئے یعنی ایسی نرمی نہ ہو جسے کمزوری تصور کیا جائے اور ایسی سختی نہ ہو جو بداخلاقی ہوجائے بلکہ توازن واعتدال اور میانہ روی کا دامن ہمیشہ مضبوطی کے ساتھ ہاتھ میں رہے۔
          اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنی سختیوں، مارپیٹ ، اکڑفوں،تنگدلی، سخت خوئی، پیشانی کی سلوٹوں، چہرے کی عبوستوں اور غصیلی نظروں سے اپنی بیوی پر اپنی مردانگی ثابت کرسکتا ہے تو یہ اس کی حماقت ، بھول، بیوقوفی اور نادانی کے سوا کچھ نہیں، ایسا شخص احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔




شادی کی رات
          شادی کی رات انسان کی زندگی کی اہم ترین رات ہوتی ہے۔ یہ ایک ناقابل فراموش یادگار رات ہوتی ہے۔ انسان اپنی زندگی کے بہت سے تلخ وشیریں حادثات فراموش کرجاتا ہے لیکن اس رات کو نہیں بھول پاتا۔ اگر اس رات میں شوہر کا طرز عمل درست نہ رہا تو دولہن اس کے نتیجے میں بہت سی نفسیاتی اور جسمانی بیماریوں کا شکار ہوجاتی ہے۔ اسی لئے ہم اس تعلق سے خوب تفصیلی ہدایات آپ کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں۔
          یہاں سلف صالحین کی تاریخ کے ایک سبق آموز واقعہ کا ذکر فائدہ سے خالی نہ ہوگا۔ واقعہ یہ ہے کہ:
          ابوحریز نامی ایک شخص صحابہ کی مجلس میں آیا اور کہنے لگا کہ میں نے ایک دوشیزہ سے نکاح کیا ہے لیکن مجھے ڈر ہے کہ کہیں ہمارے درمیان نفرت وکراہت نہ پیدا ہوجائے۔ مجھے خوف ہے کہ وہ لڑکی کہیں مجھے ناپسند نہ کرنے لگے۔ عبداﷲ بن مسعود t نے فرمایا: خبردار! الفت اﷲ کی جانب سے ہے اور کراہت شیطان کی طرف سے، تم شیطانی وسوسوں سے دور رہو اور اﷲ کی ذات سے بہتر امید رکھو۔ یعنی دولہا دلہن میں محبت ومودت پیدا کرنے والا اﷲ ہے اور شیطان کی یہ تمنا ہوتی ہے کہ اس حسین ومحبوب جوڑے کے درمیان نفرت وکراہت کی دیوار کھڑی کردے لہٰذا تم شیطان کے وسوسوں پر دھیان نہ دو۔پھر اسے عبداﷲ بن مسعود t نے ایک دعا سکھائی ، فرمایا: جب وہ لڑکی رخصت ہوکر تیرے پاس آئے گی تو اسے اپنی اقتدا میں دورکعتیں پڑھنے کے لئے کہنا اور اس کے بعد یہ دعا پڑھنا:
اَللّٰهُمَّ بَارِكْ لِيْ فِيْ أَهْلِيْ وَبَارِكْ لَهُمْ فِيَّ,  اَللّٰهُمَّ اجْمَعْ بَیْنَنَا مَا جَمَعْتَ بِخَیْرٍ, وَفَرِّقْ بَیْنَنَا إِذَا فَرَّقْتَ إِلَى خَیْرٍ۔
(اے اﷲ ! میرے لئے میری بیوی میں برکت عطا فرما اور میری بیوی کے لئے مجھ میں برکت عطا فرما۔ اے اﷲ! جب تک تو ہمیں اکٹھا رکھے خیر وبرکت کے ساتھ اکٹھا رکھ اور جب ہم میں جدائی ہو تو اس وقت بھی تو ہمیں خیر وبھلائی کے ساتھ جدا کر)([8]) ۔
          یعنی جدائی کے لئے کسی قسم کا لڑائی جھگڑا، بحث وتکرار، شر وشیطانیت، الزام سازی اور بہتان تراشی نہ ہوبلکہ خیر وسکون کے ساتھ دونوں اپنی اپنی راہ پر چلے جائیں۔
          آئیے اب شادی کی رات میں مستحب امور کا تذکرہ ترتیب وار آپ کی خدمت میں پیش کردیا جائے۔
          ١۔ دولہا دولہن کے ساتھ نرمی وملاطفت کا برتاؤ کرے مثلاً اس کے لئے کھانے پینے کی کوئی چیز پیش کرے۔
اسماء بنت یزید کی روایت ہے کہ انھوں نے ہی عائشہ r کو تیار کرکے شادی کی رات نبی eکے لئے پیش کیا تھا۔ دودھ کا ایک پیالہ لایا گیا، اس میں سے نبی e نے کچھ نوش فرمایا پھر باقی بچاہوا عائشہ r کو دے دیا ، عائشہ r نے شرماکر سر جھکالیا تو اسماء r نے ان کو ڈانٹا اور کہا کہ اﷲ کے رسولeکے ہاتھ سے پیالہ لے کر تم بھی پیو۔ چنانچہ عائشہ r نے پیالہ لے کر اس میں سے تھوڑا سا پیا---([9]
          ٢۔دولہا حجلۂ عروسی کا دروازہ بند کرلے۔ جب دونوں کمرے کی تنہائیوں میں بند ہوجائیں اور خلوت میسر ہوجائے تو دولہا اپنا دایاں ہاتھ دولہن کی پیشانی پر رکھے یعنی اپنی ہتھیلی کا کچھ حصہ پیشانی پر اور کچھ حصہ سر کے اگلے حصہ کے بالوں پر رکھے اور برکت کی دعا کرے۔
نبی e  کا ارشاد ہے:
«جب تم میں سے کوئی کسی عورت سے شادی کرے تو اس کی پیشانی پر اپنا ہاتھ رکھے اور بسم اﷲ کہہ کر برکت کی دعا کرے اور یہ دعا پڑھے:
اَللَّهُمَّ إِنِّى أَسْأَلُكَ خَيْرَهَا وَخَيْرَ مَا جَبَلْتَهَا عَلَيْهِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا وَشَرِّ مَا جَبَلْتَهَا عَلَيْهِ.
(اے اﷲ ! میں تجھ سے اس عورت کی بھلائیوں نیزجن بھلائیوں کے ساتھ تو نے اسے پیدا فرمایا ہے سب کا سوال کرتا ہوں اور اے اﷲ! میں اس عورت کی برائیوں اور جن برائیوں پر تو نے اسے پیدا فرمایا ہے ان سب کے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں)([10]) »۔
          ٣۔ عورت کو کپڑے تبدیل کرنے کا حکم دے پھر دونوں مل کر ایک ساتھ وضو کریں اور دو رکعتیں نفل ادا کریں جیسا کہ سلف صالحین سے یہ بات منقول ہے([11]
          شادی کی رات کے تعلق سے مردوں اور عورتوں میں یہ بات مشہور ہے کہ یہ جنسی عمل کی رات ہے لیکن جب ایک دولہا اﷲ کے ذکر اور نفلی صلاة سے یہ رات شروع کرے گا تو عورت کی پوری سوچ بدل جائے گی۔ جب عورت کو دولہا وضو کرنے اور اپنے ساتھ دو رکعتیں پڑھنے کا حکم دے گا تو عورت سوچے گی کہ یہ شخص نکاح سے صرف لذت اندوزی نہیں چاہتا بلکہ یہ رسول اکرم e کی سنت وشریعت کے مطابق زندگی گذارنا چاہتا ہے، صالح اولاد پیدا کرکے ان کی تعلیم وتربیت کرنا چاہتا ہے۔ یہ ظاہری ملمع سازیوں سے فریب کھانے والا اور جھوٹے بناؤ سنگار اور دکھاوے کے سامانوں پر فدا ہونے والا نہیں ہے۔ کیونکہ اگر ایسی بات ہوتی تو وہ بناؤ سنگار جس پر اتنا قیمتی وقت اور اتنا روپیہ پیسہ خرچ کیا گیا ہے اسے چند منٹ میں وضو کرکے دھونے کے لئے نہیں کہتا۔ ساری زیب وزینت، ساری سجاوٹ کو یوں بیک جنبش لب ختم نہیں کردیتا۔یہ دیکھ کر عورت کا مرد کے تئیں تصور پوری طرح تبدیل ہوجائے گااور وہ جان جائے گی کہ یہ شوہر اﷲ کے حکم اور رسول اﷲ e  کی سنت کے مطابق ایک صالح خاندان پیدا کرنا چاہتا ہے اور اسی روش پر اپنی زندگی گذارنا چاہتا ہے۔
          یہ بات ذہن نشین رہے کہ عورت کا سب سے مضبوط ہتھیار اس کی جنسی طاقت ہے۔ عورت جب کسی مرد کو اپنے سامنے ذلیل ورسوا کرنا چاہتی ہے، اسے اپنے قابو میں اور اپنی گرفت میں کرنا چاہتی ہے، اس پر اپنا شکنجہ کسنا چاہتی ہے، اس پر اپنادباؤ ڈالنا چاہتی ہے تو اس وقت اپنی اسی جنسی طاقت اور اس کے بھڑکتے شعلوں اور اپنی ہیجان انگیز اداؤں کا استعمال کرتی ہے۔ لیکن جس وقت عورت کو یہ بات معلوم ہوجائے گی کہ اس کے شوہر کو اس کی بہت زیادہ پرواہ نہیں ہے بلکہ اس نے اﷲورسول کے حکموں کی اطاعت کے لئے یہ نکاح کیا ہے تو پورے طور پر عورت کا نظریہ اور اس کے فکر کا زاویہ بدل جائے گا اور وہ ایک نئے زاویۂ فکر اور نئے نظریۂ حیات سے وابستہ ہوجائے گی۔ اسے اس بات کا احساس ہوجائے گا کہ جنسی عمل اس کے شوہر کے یہاں کوئی زیادہ اہمیت کا حامل نہیں بلکہ وہ ایسی اولاد پیدا کرنے کا خواہش مند ہے جو اﷲ کی توحید پر قائم اور اتباع سنت کی راہ پر گامزن ہوں۔



باتیں پہلی رات کی
          بہت ساری جگہوں پر یہ رواج ہے کہ دولھے نے اپنی دولہن کو اس رات سے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہوتا ہے بلکہ تصویر تک بھی نہیں دیکھے ہوتا ہے، بس کچھ عورتیں جاکر دولہن دیکھ آتی ہیں اور انھیں کے بیان پر نکاح کرلیا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں دولہا جب دولہن کے کمرے میں پہنچے تو دونوں کے درمیان روحانی اور نفسیاتی قربت پیدا کرنے اور ہر طرح کی وحشت دور کرنے کے لئے باہمی تعارف اور ایک دوسرے سے کچھ پرلطف بات چیت اور حسب ضرورت اپنی پسند وناپسند کا بیان ہونا چاہئے۔
          آئیے اس تعلق سے سلف صالحین کے بعض واقعات پر نظر ڈالتے ہیں:
پہلاواقعہ :
ابودرداء t نے اپنی بیوی سے شادی کی رات میں کہا تھا:
“جس وقت تم مجھے غصہ میں دیکھنا تم مجھے منالینا اور جب تم غصہ میں رہو گی تو میں تمھیں منالوں گا اگر ایسا نہیں ہوا تو پھر ہم دونوں میں نباہ مشکل ہوجائے گا” ([12]
          غور کیجئے کہ ان مختصر سے کلمات میں کامیاب زندگی گذارنے کا کتنا بہترین نسخہ پیش کیا گیا ہے۔ ازدواجی زندگی میں ایسے حالات بار بار آتے ہیں جب شوہر کو بیوی کی اور بیوی کو شوہر کی کسی بات پر ناراضگی ہوجاتی ہے لیکن یہ بات معلوم ہے کہ جب مرد کو غصہ آتا ہے تو جلدی ٹھنڈا نہیں ہوتا اور کوئی مرد بآسانی اپنی ضد سے نہیں ہٹتا اور نہ ہی سہولت کے ساتھ اپنی غلطی تسلیم کرکے معاملہ کو رفع دفع کرتا ہے۔ لیکن غصہ کے معاملہ میں ایک طبعی اور فطری اصول یہ ہے کہ فریق مقابل عموماً زیادہ پرسکون ہوتا ہے یعنی جب شوہر غصہ میں ہوگا تو بیوی فطری طور پر پُرسکون ہوگی اور جب بیوی غصہ میں ہوگی تو شوہر فطری طور پر پرسکون ہوگا لہٰذا ایسی حالت میں چاہئے کہ جو پرسکون ہے غصہ والے کو منالے۔اختلافات سے دور مسرت بھری ازدواجی زندگی کا اس سے اہم اور زریں نکتہ کوئی نہیں ہوسکتا۔
دوسرا واقعہ :
          یہ واقعہ تاریخ اسلام کی مشہور شخصیت قاضی شریح کا ہے اور نہایت ہی دلچسپ ،پراثراور حسین ہے([13]
          قاضی شریح نے ایک بار امام شعبی سے کہا: بنوتمیم کی عورتوں سے نکاح کیجئے بڑی سمجھدار ہوتی ہیں اور بطور دلیل یہ واقعہ سنایا۔ کہنے لگے: ایک بار میں ایک گلی سے گذر رہاتھا، ایک دروازہ پر ایک بڑھیا کو کھڑے دیکھا ، اس کے ساتھ میں ایک نہایت پری رو حسین وجمیل مہ لقا دوشیزہ بھی کھڑی تھی، مجھے پیاس نہیں تھی لیکن پیاسا بن کر ان کے پاس گیا اور پانی مانگا۔ بڑھیا نے پوچھا : آپ کو کونسا مشروب پسند ہے ؟ میں نے عرض کیا جو بھی میسر ہو پیش کردیجئے۔ اس نے اپنی بیٹی سے کہا: بیٹی! جاؤ مسافر کے لئے دودھ لے آؤ۔ جب بیٹی چلی گئی تو میں نے بڑھیا سے پوچھا : یہ لڑکی خالی ہے یا مشغول ہے؟ یعنی اس کا نکاح ہوگیا ہے یا نہیں؟ اسے کسی نے پیغام نکاح دے دیا ہے یا نہیں؟ ابھی اس کی منگنی ہوئی یا نہیں؟ بڑھیا نے کہا: ابھی لڑکی خالی ہے۔ میں نے اس سے شادی کی پیشکش کردی۔ بڑھیا نے کہاکہ فلاں اس کے چچا ہیں ان سے جاکر بات کرو۔ میں نے اس کے چچا سے بات کی تو اس نے ہامی بھر لی اور میرا پیغام نکاح اس لڑکی کے لئے منظور کرلیا۔ شریح کہتے ہیں کہ اتنا سب کچھ ہوجانے کے بعد مجھے خیال آیا کہ جلد بازی ہوگئی, میں نے یہ نہیں سوچا کہ بنوتمیم کی عورتیں بڑی سخت دل ہوتی ہیں ، حسن پر اس قدر جلدی فریفتگی کوئی اچھا کام نہیں ہوا۔ لیکن پھر میں نے کہا: جو ہوا سوہوا، اگر وہ ٹھیک رہی تو رکھا جائے گا ورنہ طلاق دے دیا جائے گا۔ کہتے ہیں کہ جب وہ لڑکی میرے گھر آئی ، میں کمرے میں داخل ہوا اور وضو کرکے دو رکعت نفل پڑھنے لگا، جب میں نے سلام پھیرا اور مڑکر دیکھا تو وہ لڑکی بھی میرے ساتھ میرے پیچھے صلاة پڑھ رہی تھی۔ میں نے سوچا یہ تو بہت اچھی لڑکی ہے ، اس کے گھر والوں نے اس کی بڑی شاندار تربیت کی ہے ([14]
          صلاة کے بعد جب خلوت ہوئی اور شریح نے اس لڑکی کی طرف ہاتھ بڑھایاتو اس نے کہا: ٹھہرئیے! پھر وہ حمد وصلاة کے بعدیوں گویا ہوئی:
“میں اس گھر میں ایک اجنبی عورت ہوں، مجھے آپ کے اخلاق اور آپ کی پسند وناپسند کا پتہ نہیں لہٰذا آپ مجھے یہ باتیں بتادیجئے۔ آپ اپنی قوم کی کسی لڑکی سے شادی کرسکتے تھے اور میں بھی اپنی قوم کے کسی لڑکے سے بیاہی جاسکتی تھی لیکن اﷲ کا فیصلہ اور اس کی تقدیر کا نوشتہ اٹل ہے۔ آج آپ میرے مالک ہیں چاہیں تو اچھے انداز میں میرے ساتھ رہیں اور چاہیں تو اچھے انداز میں مجھ سے الگ ہوجائیں۔ مجھے یہی بات کہنی تھی۔ آخر میں اپنے لئے اور آپ کے لئے اﷲ سے عفو ومغفرت کی طلبگار ہوں”۔
          قاضی شریح کہتے ہیں کہ اس جگہ تقریر کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی مگر میں نے اس کی بات سن کر باقاعدہ تقریر کی ضرورت محسوس کی چنانچہ حمد وصلاة کے بعد میں عرض پرداز ہوا:
“تم نے بڑی عمدہ بات کہی ہے اگر تم اپنی بات پر قائم رہتی ہو تو یہ تمھاری ایک خوبی ہوگی اور اگر اس سے ہٹ جاتی ہو تو یہ گفتگو تمھارے خلاف حجت ودلیل ہوگی۔ مجھے فلاں فلاں چیزیں پسند ہیں اور فلاں فلاں چیزیں ناپسند ہیں اور ہاں سنو! اگر مجھ میں کوئی نیکی اور بھلائی دیکھنا تو اسے عام کرنا اور لوگوں میں پھیلانا اور اگر کوئی برائی دیکھنا تو اس کی پردہ پوشی کرنا” ۔
           پھر اس عورت نے دریافت کیا کہ میرے گھر والوں کے تعلق سے آپ کا کیا خیال ہے ، وہ آپ کے یہاں کتنا اور کس قدر آمدورفت رکھیں ؟ قاضی شریح نے جواب دیا : میں نہیں چاہتا کہ تمھارے گھر والے آکر میرا وقت ضائع کریں اور میری اکتاہٹ کا باعث بنیں۔ چونکہ آپ قاضی اور مشغول انسان تھے اس لئے اس طرح کی بات فرمائی۔
          پھر اس لڑکی نے پوچھا کہ آپ اپنے محلہ کے کن کن گھرانوں سے تعلقات اور آمد ورفت وزیارت کا معاملہ رکھنا پسند فرمائیں گے؟ قاضی شریح نے اس کی بھی وضاحت کی اور بتلایا کہ فلاں فلاں اچھے لوگ ہیں اور فلاں فلاں ٹھیک نہیں۔
           قاضی شریح بتلاتے ہیں کہ پھر بقیہ رات بڑی حسین گذری اور اس کے بعد کی زندگی تو اور ہی خوبصورت اور پرلطف گذری۔ ایک دن کی بات ہے ، میں قضا کی مجلس (کمرۂ عدالت) سے لوٹ کر آیا تو میں نے دیکھا کہ ایک بڑھیا میرے گھر میں ہے۔ میں نے پوچھا کون ہے؟ بتایا گیا کہ میری ساس ہے۔ میں گھر میں داخل ہوا تو بڑھیا نے آکر مجھ سے سلام کیا اور میرا حال دریافت کیا، میں نے کہا: بہت اچھا ہے۔ اس نے پوچھا کہ آپ کی بیوی کیسی ہے؟ میں نے کہاکہ مجھے بہت اچھی بیوی ملی ہے۔ بڑھیا نے کہا: سنو! عورت دو حالتوں میں بگڑجاتی ہے ، ایک اس وقت جب اس کے بطن سے بیٹا جنم لے لے اور دوسرے اس وقت جب اس کا شوہر اسے بہت چاہنے لگا ہو، بیٹا ہونے کی صورت میں اس کا سر غرور سے اس قدر بلند ہوتا ہے گویا اﷲ تعالی نے نہیں بلکہ اس نے خود اپنی مرضی سے یہ بیٹا جنم دیا ہے۔اسی طرح جب عورت کو یہ احساس ہوجاتا ہے کہ اس کا شوہر اس سے بے پناہ محبت کررہا ہے تو اپنے ناز اٹھوانے کے چکر میں بگڑجاتی ہے۔
          بڑھیا نے مزید کہا: سنو! زیادہ ناز ونخرے والی عورت بری ہوتی ہے لہٰذا اگر ایسی کوئی بات دیکھنا تو اسے ادب سکھانا، سمجھانا اور اس کی اصلاح کرنا۔
          قاضی شریح کہتے ہیں کہ میں نے کہا:محترمہ! ماشاء اﷲ آپ نے اپنی بچی کی خوب سے خوب تربیت کی ہے اور میری زندگی بہت اچھی گذر رہی ہے۔ فرماتے ہیں کہ میں بیس سال تک اس عورت کے ساتھ رہا مگر کبھی غصہ کی نوبت نہیں آئی ، ایک بار میں ناراض ہوا لیکن وہاں غلطی میری ہی تھی اور میں ہی ظالم تھا۔

جنسی عمل سے کچھ پہلے
          شادی کی رات وہ رات ہے جس میں ایک عورت اپنے مانوس آشیانے کو چھوڑ کر ایک نئے غیرمانوس گھر کو منتقل ہوتی ہے۔ یہاں پر اسے نئے مکان ، نئی جگہ اور نئے تجربے کی وحشت ہوتی ہے ، شرم وحیا کا اپنا الگ کردار ہوتا ہے۔ مستقبل کے بہت سے خوف واندیشے دل ودماغ پر چھائے رہتے ہیں۔ اس لئے شوہر کو ان سارے حالات کا پورا خیال رکھنا چاہئے اور حجلۂ عروسی میں پہنچتے ہی جنسی عمل نہیں شروع کردینا چاہئے بلکہ شوہر کو چاہئے کہ دولہن پر طاری وحشت کو دور کرنے اور انس ومحبت پیدا کرنے کے لئے اس سے میٹھی میٹھی گفتگو اور دلچسپ باتیں کرے۔ جب وحشت دور ہوکر انسیت پیدا ہوجائے پھر دھیرے دھیرے شرم وحیا کے پردے اٹھائے۔
          یہ بھی یاد رہے کہ حجلۂ عروسی کے قریب کوئی خلل انداز ہونے والی چیز نہ ہو تاکہ زوجین نہایت پرسکون ماحول میں جنسی عمل انجام دے سکیں۔ اگر ممکن اور میسر ہو تو دولہا دولہن کے لئے مستقل مکان ہونا چاہئے اور اگر ایسا ممکن اور میسر نہیں تو کم ازکم ان کا ایک خاص کمرہ ضرور ہونا چاہئے جہاں کسی قسم کی خلل اندازی کا اندیشہ نہ ہوکیونکہ جماع وہ عمل ہے جو نہایت ہی پرسکون ماحول چاہتا ہے اور معمولی خلل بھی اس پر اثر انداز ہوجاتا ہے۔
          آئیے حدیث اور تاریخ کی روشنی میں ایک واقعہ پر غور کرتے ہیں۔ رسول اکرم e نے ابو سلمہ t کی شہادت کے بعد ام سلمہ r کو پیغام نکاح دیا، انھوں نے معذرت کردی، اس سے قبل اور بھی بہت سے لوگوں نے پیغام نکاح دیا تھا اور انھوں نے معذرت کردی تھی۔ معذرت کے اسباب بتلاتے ہوئے انھوں نے کہاکہ وہ ایک غیرت مند خاتون ہیں اور انھیں یہ بات برداشت نہیں ہوگی کہ ان کے شوہر میں ان کے ساتھ دیگر عورتیں بھی شریک رہیں۔دوسری وجہ یہ بتائی کہ ان کے پاس چھوٹے چھوٹے بچے ہیں جن کی پرورش اور تربیت کی ذمہ داری ان پر ہے۔ تیسری وجہ یہ بتائی کہ ان کی عمر زیادہ ہے بوڑھی ہوچکی ہیں تو اﷲ کے رسول e نے فرمایا: جہاں تک غیرت کی بات ہے تو میں اﷲ تعالی سے دعا کروں گا اور تمھاری یہ بیجا غیرت ختم ہوجائے گی اور جہاں تک بچوں کی بات ہے تو تمھارے بچے ہمارے بچے ہیں ، میں ان کی کفالت و تربیت اور پرورش کا ذمہ دار ہوں۔ اور جہاں تک بوڑھے ہونے کی بات ہے تو میری عمر بھی تمھاری عمر کی طرح ہے چنانچہ وہ رسول e سے نکاح کرنے پر راضی ہوگئیں اور نکاح ہوگیا۔ جب رسول e ان کے کمرے میں گئے تو دیکھا کہ وہ اپنی چھوٹی بچی زینب کو لے کر دودھ پلارہی ہیں ، اﷲ کے رسول e جو نہایت باحیا تھے بلکہ گھر میں بیٹھی پردہ نشین کسی کنواری دوشیزہ سے بھی زیادہ حیادار تھے، آپ نے یہ صورت حال دیکھی تو دروازے سے واپس آگئے۔ تھوڑی دیر بعد آپ پھر پہنچے تو دیکھا کہ زینب ابھی بھی گود میں ہے۔ آپ نے پوچھا کہ زینب کا کیا حال ہے؟ ام سلمہ نے جواب دیا کہ ٹھیک ہے۔ آپ e دوبارہ واپس آگئے۔ اس بات کو عماربن یاسرt نے محسوس کرلیا چنانچہ زینب کو اپنی گود میں اٹھایا اور اسے لے کر باہر چلے گئے۔ پھر جب نبی e پہنچے اور آپ نے دیکھا کہ زینب موجود نہیں تو آپ کے دریافت کرنے پر آپ کو قصہ بتایا گیا۔ اﷲ کے نبی e نے تبسم فرمایا اور پھر ان کے ساتھ شب باشی فرمائی اور اپنی حاجت پوری کی([15]
          یہاں قابل غور یہ ہے کہ نبی e جو اس سے پہلے کئی شادیاں کرچکے تھے اور یہ آپ کا پہلا نکاح نہیں تھا آپ نے یہ مناسب نہیں سمجھا کہ دولہا اور دولہن کے درمیان ایک شیرخوار بچی بھی خلل اندازی کا باعث بنے تو سوچنا چاہئے کہ وہ جوڑا جو ابھی پہلی بار نکاح کے تجربہ سے گذر رہا ہے وہ کسی خلل اندازی، تشویش اور ہنگامہ کے ہوتے ہوئے جنسی عمل کیسے بآسانی انجام دے سکتا ہے؟ کوئی آکے دروازہ کھٹکھٹائے یا کسی قسم کا اور کوئی ہنگامہ ہو یا ریڈیو اور ٹیپ بج رہے ہوں یا قریب میں کچھ لوگ گپ شپ کررہے ہوں ، ان پُرشور ہنگاموں کے درمیان وہ اپنا جنسی عمل کس طرح حسن وخوبی سے انجام دے سکتے ہیں۔واضح رہے کہ جنسی عمل کے لئے پرسکون ماحول کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
جنسی عمل لمحہ بہ لمحہ
          آئیے اب اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ جماع اور ہمبستری کا عمل کس طرح انجام پائے گا؟
یاد رہے کہ اﷲ تعالی کا ارشاد ہے:
 ﴿وَاللّٰہُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ﴾([16])
(اﷲ تعالی حق کہنے سے نہیں شرماتا)۔
          عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں : «انصار کی عورتیں کیا خوب ہیں جن کے تحصیل علم کی راہ میں حیا  رکاوٹ نہیں ہوئی»([17]
          ایک حدیث میں مروی ہے کہ کوئی اپنی بیوی سے اس طرح جماع نہ کرے جیسے جانور ایک دوسرے سے کرتے ہیں بلکہ ابتدا میں کچھ گفتگو اور بوس وکنار وغیرہ ہونا چاہئے۔ لیکن محدثین نے باعتبار سند اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔
          دوسری حدیث میں ہے کہ جب کوئی اپنی بیوی کے پاس آئے تو اس طرح ننگا نہ ہو جس طرح دو گدھے ننگے ہوتے ہیں۔ لیکن اہل علم نے اسے بھی ضعیف قرار دیا ہے۔
          تیسری حدیث میں ہے کہ جب کوئی اپنی بیوی یا لونڈی کے پاس ہمبستری کی غرض سے جائے تو بوس وکنار ، گفتگو اور ملاطفت سے پہلے جماع نہ کرے۔ لیکن یہ حدیث بھی منکر اور ضعیف ہے۔
          اس موضوع پر کچھ اور بھی احادیث بیان کی جاتی ہیں لیکن وہ سب کے سب ضعیف اور ناقابل قبول ہیں([18]
          کتاب وسنت میں اس موضوع پر بہ صراحت تفصیلی رہنمائی نہ ہونے کی بنا پر آئیے اصول ومقاصد شریعت ،انسانی فطرت اور علم نفسیات کے ذریعہ اس موضوع پر گفتگو کرتے ہیں۔
          یہ ایک فطری بات ہے کہ جب ایک اجنبی دوسرے اجنبی سے ملتا ہے تو پہلے گفتگو اور بات چیت کے ذریعے وحشت کے پردوں کو اٹھاتا اور انسیت پیدا کرتا ہے ، پھر تعارف اور میل جول ہوتا ہے۔ اسی طرح وہ نوجوان لڑکی جو خواب وخیال کی دنیا میں رہتی ہے اور جس نے نکاح اور شادی کو بے خار چمن زار، عطر و گلاب کی دنیا اور حسین کہکشاؤں کا عالم تصور کررکھا ہے، جو یہ سمجھتی ہے کہ اس میں صرف مزے اور لذتیں ہوتی ہیں ، شہد کی مٹھاس اوردیگر شیرینیاں ہوتی ہیں، اگر کوئی شخص پہنچتے ہی اس کے ساتھ جنسی عمل میں لگ جائے گا تو اس کے تمام خواب یک بیک چکنا چور ہوجائیں گے۔
          جب پہلی رات آدمی دولہن کے کمرے میں جائے تو اس سے میٹھی میٹھی باتیں کرے۔ اچھے اچھے اشعار پڑھے۔ اس کے حسن وجمال کی تعریف کرے۔ اسے کھلائے اور گدگدائے۔ ہنسی مذاق اور دل لگی کرے۔ بوسہ لے اور چمٹائے۔ ہونٹ سے ہونٹ ملائے اور جب اپنی شریک حیات میں گرمی محسوس کرے تو ہونٹوں سے آگے بڑھے اور لعاب سے لعاب کا تبادلہ کرے۔ زبان چوسے۔ یہ عمل بیحد ہیجان اور نشاط انگیز ہے۔ پھر ہونٹ اور زبان سے کان، گردن گلے اور سینے کی طرف اپنی توجہ منعطف کرے۔ پھر اس کے کپڑے دھیرے دھیرے ایک کے بعد ایک اتارے۔ سارے کپڑے ایک ساتھ نہ اتار دے۔ پہلے ایک پھر دوسرا پھر تیسرا یہاں تک کہ جب دولہن پوری طرح تیار ہوجائے تو نبی e سے ثابت یہ دعا پڑھے:
بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّیْطَانَ وَجَنِّبِ الشَّیْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا۔
( اﷲ کے نام سے، اے اﷲ ! ہم کو شیطان سے محفوظ رکھ اور ہماری اولاد کو شیطان سے محفوظ رکھ۔)
          یہ دعا پڑھ لینے کے بعد جنسی عمل شروع کرے۔ اس دعا کی فضیلت نبی اکرم e نے یہ بتائی ہے کہ اگر اﷲ تعالیٰ نے اس ہمبستری سے اولاد عطا فرمائی تو شیطان اسے کبھی نقصان نہ پہنچائے گا([19]
          یہاں ایک ضروری تنبیہ کردینا مناسب ہے کہ بعض کتابوں میں جماع کی حالت میں ﴿قل هو اللہ أحد اور دیگر بہت سی دعاؤں کے پڑھنے کا ذکر ہے اور یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ پردۂ بکارت زائل کرلینے کے بعد بہ آواز بلند تکبیر پکارے۔ یہ ساری باتیں شرعی طور پر غلط اور بے بنیاد ہیں۔
          جماع کی حالت جنابت اور ناپاکی کی حالت ہے۔ اس کے بعد غسل کا لازمی حکم دیا گیا ہے خواہ انزال ہوا ہو یا نہ ہوا ہو اور اس حالت میں اﷲ کے ذکر، تلاوت قرآن اور صلاة سے منع کیا گیا ہے ، پھر اس حالت میں قل ہو اللہ أحد پڑھنا یا تکبیر پکارنا یا کوئی اور سورت یا آیت پڑھنا یا کوئی ذکرکرنا کیونکر درست ہوسکتا ہے؟ایسی بات بالکل غلط ہے، ایک بار نہیں سوبار غلط اور خلاف شریعت ہے۔
          لوگوں میں جو یہ بات مشہورہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کی شرمگاہ نہیں دیکھ سکتے یہ بھی قطعی طور پر غلط ہے۔ اس کی دلیل نبی e کی وہ حدیث ہے جس میں آپ e نے فرمایا:
“اپنی شرمگاہ کو اپنی بیوی اور لونڈی کے علاوہ سب سے محفوظ رکھو”([20]
          اس کے خلاف کوئی ایسی صحیح روایت موجود نہیں جس میں ایک دوسرے کی شرمگاہیں دیکھنے کی ممانعت آئی ہو۔
          واضح رہے کہ مرد کے لئے اپنی بیوی سے ہر حالت وہیئت اور شکل وکیفیت میں لطف اندوز ہونا جائز ہے نیز جس وقت دن ورات میں چاہے ہمبستری کرسکتا ہے۔ اﷲ تعالی کا ارشاد ہے:
﴿نِسَآؤُکُمْ حَرْثٌ لَکُمْ فَأْتُوْا حَرْثَکُمْ أَنَّیٰ شِئْتُمْ﴾([21])
(تمھاری بیویاں تمھاری کھیتیاں ہیں، اپنی کھیتیوں میں جس طرح چاہو آؤ)۔
اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے نبی e نے ارشاد فرمایاہے:
”آگے سے آؤ اور پیچھے سے آؤ لیکن پاخانہ کے راستہ اور حالت حیض سے بچو“([22]
          یعنی حیض ونفاس کی حالت میں یا پچھلی شرمگاہ کے راستہ سے لذت اٹھانا حرام ہے۔ صرف وہی راستہ استعمال کرنا جائز اور درست ہے جس سے بچہ پیدا ہوسکتا ہے اور جو درحقیقت کھیتی کی جگہ ہے۔
نبی e کا ارشاد ہے:
“جس شخص نے کسی حیض والی عورت سے جماع کیا یا کسی عورت کے پاخانہ والے راستے سے جماع کیا یا کسی کاہن کے قول کی تصدیق کی تو اس نے محمد e پر نازل ہونے والی شریعت کا کفر کیا”([23]
          ایسے شخص کو اﷲ تعالی سے توبہ اور استغفار کرنا چاہئے۔اور توبہ کا مفہوم یہ ہے کہ وہ عمل قطعاً ترک کردے، اس پر نادم وشرمندہ ہو اور آئندہ کے لئے یہ پختہ عزم کرے کہ اسے یہ حرکت کبھی نہیں دہرانی ہے([24]



شب زفاف کی صبح
          شادی کی رات گذارنے کے بعد صبح میں شوہر کے لئے لازم ہے کہ طہارت کی خاطر غسل جنابت کرے۔
          غسل کا افضل طریقہ یہ ہے کہ بسم اﷲ کہہ کر اپنے دونوں ہاتھ تین بار دھوئے پھر اپنی شرمگاہ کو بائیں ہاتھ سے خوب صاف کرے پھر اپنے دونوں ہاتھ صابون وغیرہ سے دوبارہ دھوئے پھر مکمل وضو کرے یا پیر کا دھونا موخر کردے۔ وضو کے بعد اپنے سر پر تین مرتبہ پانی ڈالے پھر اپنے داہنے پہلو پرپانی ڈالے، پھر بائیں پہلو پر۔ اگر اس نے وضو کے وقت اپنے دونوں پیر نہیں دھوئے تھے تو بعد میں انھیں دھولے۔ اس طرح غسل جنابت مکمل ہوجائے گا۔
          صبح میں نہا دھوکر صاف ستھرے کپڑے پہن کر عطر وغیرہ استعمال کرکے اپنے رشتہ داروں، عزیزوں اور گھر آئے ہوئے مہمانوں سے ملاقات کرے۔ ان سے سلام کرے، ان کو دعا دے اور وہ لوگ بھی اسے دعا دیں۔ دعا کے لئے سب سے بہتر الفاظ وہ ہیں جو نبی e سے ثابت ہیں۔ آپ e دولہے کو دعا دیتے ہوئے کہتے تھے:
بَارَكَ اللّٰہُ لَكَ وَبَارَكَ عَلَیْكَ وَجَمَعَ بَیْنَکُمَا فِيْ خَیْرٍ۔
(اﷲ تیرے لئے برکت عطا کرے، تجھ پر برکت نازل فرمائے اور خیر وبھلائی میں تم دونوں کو متحد رکھے)([25]) ۔
          یاد رہے کہ نوجوان دوستوں کی محفل میں یا کسی بھی شخص کے سامنے اپنی بیوی کے حسن وجمال کی تعریف یا شب کے اندھیروں میں انجام دیئے گئے خانگی رازوں کا بیان حرام ہے۔ یہ بات شرعی وعقلی ہر طور پر نادرست ہے۔
           رات کی تنہائی میں اپنی بیوی کے ساتھ کئے گئے جنسی اعمال کی تفصیل کسی سے بیان کرنا انتہائی گھناؤنا، غیر مہذب اور غیر فطری عمل ہے شریعت نے اس سے سختی سے روکا ہے اور اسے حرام قرار دیا ہے۔                  
رسول اﷲ e کا ارشاد ہے:
“قیامت کے روز اﷲ کے یہاں سب سے بدتر مرتبہ والا وہ شخص ہوگا جو اپنی عورت سے ملاپ کرے اور عورت اس سے ملاپ کرے پھر وہ(شوہر) بیوی کے راز کوپھیلائے”([26]
          راز کے پھیلانے کا مفہوم یہ ہے کہ دوستوں میں مزے لے لے کر بیان کرے۔ ظاہر ہے کہ بند کمرے کی بات جب کسی سے زبانی طور پر بیان کردی گئی تو گویا اسے اس کی تصویر دکھادی گئی اور وہ عمل اس کے سامنے انجام دیا گیا لہٰذا اب راز راز نہیں رہا۔ اسی لئے حدیث پاک میں جنسی راز بیان کرنے والے کی مثال یہ دی گئی ہے کہ جیسے ایک شیطان اور شیطانہ سر راہ بغلگیر ہوکر جنسی عمل انجام دیں اور لوگ انھیں دیکھ رہے ہوں([27])۔ والعیاذ باللہ۔
          بعض احمق اپنی بیوی کا حسن وجمال بڑھا چڑھا کر اپنے دوستوں سے بیان کرتے ہیں جس سے دیکھنے اور ملنے کی خواہش دلوں میں انگڑائیاں لیتی ہے اور کبھی آگے چل کر بڑے ہی دردناک واقعات رونما ہوتے ہیں۔
          بعض لوگ اپنے دوستوں سے اپنی بیوی کا تعارف کرواتے اور اس سے ملواتے ہیں یہ اور بھی زیادہ بھیانک اور سنگین عمل ہے۔



حقوق زوجیت کے چند مسائل
          شب زفاف کے احکام ومسائل کے ساتھ ساتھ حقوق زوجیت کے چند اہم مسائل کا ذکر کردینا مناسب معلوم ہوتا ہے تاکہ مستقبل میں کام آئے([28])۔ چنانچہ چند اہم مسائل مندرجہ ذیل ہیں:
١۔میاں بیوی ایک دوسرے کے لئے بناؤ سنگار کریں۔
           جس طرح ایک مرد کی خواہش ہوتی ہے کہ عورت اس کے سامنے بن سنور کر آئے ویسے ہی ایک عورت کی بھی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کا شوہر مردانہ وجاہت اور مردانہ حسن وزیبائش کے ساتھ اس کے سامنے ہو۔
          عائشہ r کی حدیث ہے کہ نبی e جب گھر میں داخل ہوتے تو سب سے پہلا کام مسواک کرتے تھے([29]
          اس حدیث سے جہاں منہ کی صفائی کی اہمیت معلوم ہوتی ہے وہیں صفائی کی عمومی اہمیت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔
٢۔عورت شوہر کے بلانے پر بلاتاخیر لبیک کہے۔
           عورت کے لئے ضروری ہے کہ جب اس کا شوہر اسے بلائے تو اس کی پکار پر لبیک کہے، اس میں تاخیر نہ کرے، اگر وہ اس سے انکار کرتی ہے اور شوہر کی شہوت پوری کرنے میں تاخیر کرتی ہے تو فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں اور اﷲ تعالی اس پر غضب ناک ہوتا ہے۔ رسول اﷲ e  فرماتے ہیں:
“اﷲ کی قسم! عورت اس وقت تک اپنے رب کا حق ادا نہیں کرسکتی جب تک کہ وہ اپنے شوہر کے حقوق ادا نہ کرے”([30]
نیز نبی e  کا ارشاد ہے:
“عورت جب اپنے شوہر کا بستر چھوڑ کر رات گذارتی ہے تو فرشتے صبح ہونے تک اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں”([31]
          جو عورت اﷲ پر، اس کے رسول پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہے ناممکن ہے کہ ان احادیث کے ہوتے ہوئے اپنے شوہر کی نافرمانی کرے اور اس معاملہ میں کوتاہی اور غلطی کرے([32]
٣۔ میاں بیوی کے باہمی اچھے ربط بلکہ ہمبستری کے عمل پر بھی اجر وثواب ہے۔
رسول اﷲ e  کا ارشاد ہے:
”ہمبستری کرنا صدقہ ہے۔ صحابہ y  نے پوچھا: اے اﷲ کے رسول! ہم میں سے کوئی اپنی شہوت پوری کرتا ہے اور اس میں بھی اجر پاتاہے؟ آپ e نے فرمایا: مجھے بتاؤ،اگر وہ اسے حرام جگہ استعمال کرتا گناہ پاتا یا نہیں؟صحابہ y  نے کہا :کیوں نہیں، آپ نے فرمایا : اسی طرح جب وہ حلال میں استعمال کرتا ہے تب اجر پاتا ہے“([33]




اختتامیہ
          اس موضوع کے اختتام پر میں اپنے آپ کو اور تمام قارئین کو اس بات کی دعوت دیتا ہوں کہ ہم سب اﷲ سے ڈریں اور اس کے عذاب کا خوف رکھیں نیز اﷲ کی حلال کردہ چیزوں سے لطف اندوز ہوں اور حرام کردہ چیزوں سے دوری اور کنارہ کشی اختیار کریں۔
                واللہ هو الموفق والهادی إلی سواء السبیل۔
اﷲ تعالی نے اہل ایمان کی صفت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
﴿وَالَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حَافِظُوْنَ إِلَّا عَلَیٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَامَلَکَتْ أَیْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ فَمَنِ ابْتَغَیٰ وَرَآءَ ذَلِكَ فَأُوْلٰئِكَ هُمُ الْعَادُوْنَ  ([34])
(جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں سوائے اپنی بیویوں اور ملکیت کی لونڈیوں کے, یقینا ًیہ ملامتیوں میں سے نہیں ہیں, جو اس کے سوا کچھ اور چاہیں وہی حد سے تجاوز کرنے والے ہیں)۔
          جو لوگ اپنی حلال جگہ چھوڑ کر کسی اور جگہ اپنی خواہشات کی پیاس بجھاتے ہیں وہ حدود سے تجاوز کرنے والے لوگ ہیں۔ خواہ ان کا عمل زناکاری وبدکاری ہو یا لواطت واغلام بازی ہو یا مشت زنی وغیرہ ہو([35]
نبی e نے شادی کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا ہے:
“اے جوانو! تم میں سے جو شخص شادی کی طاقت رکھتا ہے وہ شادی کرلے کیونکہ یہ نگاہوں کو پست رکھنے اور شرمگاہ کو محفوظ رکھنے کا سب سے اچھا ذریعہ ہے اور جس کے اندر شادی کی استطاعت نہیں وہ صوم رکھے کیونکہ صوم شہوت کو توڑدیتا ہے”([36]
          جو لوگ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کی خالص نیت رکھتے ہیں ان کے لئے اﷲ کے رسول e کی طرف سے خوشخبری اور مزدۂ جانفزا ہے۔ ارشاد ہے:
“تین لوگوں کی مدد اﷲ تعالی ضرور کرتا ہے ایک وہ غلام جوکچھ رقم کی ادائیگی کرکے آزادی حاصل کرنا چاہتا ہو،دوسرے وہ شخص جو نکاح کے ذریعہ پاکدامنی کا ارادہ رکھتا ہو اور تیسرا وہ شخص جو اﷲ کی راہ میں جہاد کررہا ہو”([37]
نیز ارشاد ربانی ہے:
﴿وَمَن یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّهُ مَخْرَجاً وَّیَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لاَیَحْتَسِب﴾([38]) 
(جو شخص اﷲ سے ڈرتا ہے اﷲ اس کے لئے چھٹکارے کی شکل نکال دیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے روزی دیتا ہے جس کا اسے گمان بھی نہ ہو)۔
          ہر مسلمان مردوعورت کو فحش کاری اور بدکاری سے دور رہنا فرض ہے اور اس کے قریب جانا حرام ہے بلکہ ان کے اسباب ووسائل اور ان تک قریب لے جانے والی چیزوں سے بھی دور رہنا ضروری ہے۔ نہ اجنبی مرد وعورت کبھی تنہائی میں اکٹھا ہوں، نہ ہی بے حجابی وبے پردگی اختیار کریں، نہ ہی اپنی آنکھیں آزاد چھوڑیں کہ جہاں چاہیں وہاں سے آنکھیں سینکتے پھریں اور نہ ہی ایسے روابط وتعلقات قائم کریں جو مستقبل میں زنا اور حرام کاری تک پہنچانے والے ہوں اور اﷲ کے شدید عذاب کا خوف رکھیں جو اﷲ تعالی نے ایسے مجرموں کے لئے تیار کر رکھا ہے۔
          اﷲ تعالی نے زنا کے مجرم کے لئے دنیا وآخرت میں رسواکن سزا رکھی ہے جس سے دنیا میں بھی فضیحت ورسوائی ہے اور آخرت میں بھی دردناک اور تکلیف دہ عذاب۔ زنا کی دنیاوی سزا غیر شادی شدہ کے لئے سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی اور شادی شدہ کے لئے رجم اور سنگساری ہے یعنی مجرم کو پتھروں سے مار مار کر ہلاک کردیا جائے۔
زنا کی اخروی سزا کی منظر کشی کرتے ہوئے نبی e نے فرمایا:
“ایک تنور کے پاس سے ہمارا گذر ہوا جس کا اوپری حصہ تنگ اور نچلا حصہ کشادہ تھااور وہاں پر آگ بھڑ کائی گئی تھی اور اس میں شور وہنگامہ اور چیخ وپکار ہورہا تھا، دیکھا گیا تو اس میں چند ننگے مرد اور کچھ برہنہ عورتیں نظر آئیں جب جب وہ آگ بھڑکتی تو وہ چیخنے اور چلانے لگتے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ زنا کار مردوعورت ہیں جو اپنے کئے کی سزا بھگت رہے ہیں”([39]
           اس کے سوا ایک زناکار کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اس کے نتیجہ میں اس پر، اس کے خاندان پراور اس کے عزیز واقارب پر ذلت ورسوائی، بدنامی، شرمندگی اور عار کا جو سیاہ داغ لگتا ہے اسے مٹایا نہیں جاسکتا۔ یہ اس کی پیشانی پر وہ کلنک ہے جو کبھی صاف نہیں ہوتا ایسے لوگوں کا جب راز فاش ہوتا ہے تو وہ اپنے دکھ اور اذیت کو دیکھ کر تمنا کرتے ہیں کہ کاش زمین پھٹ گئی ہوتی اور وہ اس میں دھنس گئے ہوتے لیکن اس وقت افسوس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ ہونا یہ چاہئے کہ شروع ہی میں اپنے بڑھتے قدموں کو روکا جائے([40]
          نکاح کا پاکیزہ طریقہ اختیار کرکے زنا کے رسواکن عمل سے اپنی حفاظت کی جاسکتی ہے۔
واللہ أعلم وصلی اللہ علی نبینا وسلم۔
عبدالہادی عبدالخالق مدنی
٣٠ربیع الثانی ١٤٢٦ھ
اتمام توثیق وتصحیح: ۲۷/جمادی الاولی ۱۴۳۲ھ




([1]) واضح رہے کہ ہم نے مذکورہ کتاب کا وہ نسخہ استعمال کیا ہے جو المکتبۃ الاسلامیۃ عمان الاردن سے سنہ ۱۴۰۹ ھ میں شائع ہوا ہے، لہٰذا حوالہ جات کے مراجعہ اور توثیق کے لئے اسی نسخہ کو استعمال کیا جائے۔
([2]) حدیث کے عربی الفاظ اس طرح ہیں:- عن حجر بن قيس - و كان قد أدرك الجاهلية - قال:  خطب علي رضي الله عنه إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاطمة رضي الله عنها فقال : " هي لك على أن تحسن صحبتها " . اسے امام طبرانی اور بزار نے روایت کیا ہے اور علامہ البانی نے السلسلۃ الصحیحۃ (جلد۱ صفحہ ۳۱۷ حدیث نمبر ۱۶۶) میں صحیح قرار دیا ہے۔
([3]) ملاحظہ ہو العقد الفرید لابن عبدربہ الاندلسی (۲/۴۱۹)
([4]) ملاحظہ ہو العقد الفرید لابن عبدربہ الاندلسی (۲/۳۲)
([5]) یہ حدیث متفق علیہ ہے، اسے امام بخاری اپنی جامع صحیح میں متعدد مقامات پر لائے ہیں،  كتاب اللباس باب قص الشارب وباب تقليم الأظفار (کتاب نمبر۸۰ باب نمبر ۶۱،۶۲ حديث نمبر۵۵۵۰,۵۵۵۱) كتاب الاستئذان باب الْخِتَانِ بَعْدَ الْكِبَرِ وَنَتْفِ الْإِبْطِ (کتاب نمبر۸۲ باب نمبر ۵۱ حديث نمبر۵۹۳۹)  اور امام مسلم نے اسے  كتاب الطهارة باب خصال الفطرة  میں روایت کیا ہے۔ (کتاب نمبر۲ باب نمبر۱۶ حديث نمبر۴۹-(۲۵۷))۔
([6]) یہ شعر قرآن کریم کی آیت ﴿خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ ...﴾ (الأعراف/۱۹۹) کی تفسیر میں متعدد تفسیر کی کتابوں میں مذکور ہے، نیز ملاحظہ ہو: التحرير والتنوير المعروف بتفسير ابن عاشور (۸/۳۹۹) وتفسير القرطبي (۳/۶۱) وعيون الأخبار (۱/۳۹۵)
([7]) ان واقعات کا حوالہ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کیونکہ یہ واقعات پہلے ہی سے اپنی شہرت کے باوجود مردود ونامقبول کی فہرست میں آتے ہیں۔
([8]) اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ، امام عبدالرزاق اور امام طبرانی نے مختلف الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے ان کی سندوں کو صحیح قرار دیا ہے۔ ملاحظہ ہو آداب الزفاف (صفحہ ۹۶)۔
([9])اس حدیث سے متعلق علامہ البانی نے آداب الزفاف (صفحہ۹۲) میں لکھا ہے : اس حدیث کو امام احمد نے کہیں طویل اور کہیں مختصر روایت کیا ہے، اس کی دو سندیں ہیں جو ایک دوسرے کی تقویت کا باعث ہیں، نیز علامہ منذری نے اس کے قوی ہونے کا اشارہ کیا ہے، مسند حمیدی میں بھی یہ روایت ہے، نیز امام طبرانی کے یہاں اس کا ایک شاہد بھی موجود ہے۔۔۔۔ الخ۔ واللہ اعلم
([10])اس حدیث کو امام ابوداود نے کتاب النکاح باب فی جامع النکاح (کتاب نمبر۶ باب نمبر ۴۶حدیث نمبر ۲۱۶۰) میں روایت کیا ہے اور علامہ البانی نے آداب الزفاف (صفحہ۹۳) میں حسن قرار دیا ہے۔
([11])ملاحظہ ہو آداب الزفاف (صفحہ۹۴)
([12]) فقہ السنۃ جلد۲ صفحہ۲۳۳۔
([13]) ملاحظہ ہو أخبار القضاة لابن حيان البغدادي جلد۲ صفحہ ۲۰۶۔
([14])غور کیجئے! موجودہ سماج ومعاشرے کی لڑکیوں کی تربیت کا کیا حال ہے؟ آج یورپی تہذیب کا غلبہ ہے۔ مادیت پرستی کا تسلط ہے۔ ناولوں، افسانوں، جھوٹی کہانیوں کا مطالعہ کرنے والی، انٹرنیٹ اور ٹی وی سے لطف اندوز ہونے والی اور انھیں حصول علم کا مصدر بنانے والی لڑکیاں تو بہت مل جائیں گی مگر اسلامی شریعت اور کتاب وسنت کا صحیح اور مفید علم رکھنے والی تربیت یافتہ لڑکیاں کہاں ملتی ہیں؟ ڈھونڈتے رہئے چراغ رخ زیبا لے کر۔
([15]) یہ حدیث مسند احمد (۶/۲۹۵/۲۶۵۷۲) میں مختصراً مروی ہے اوراس کی بعض تفصیلات سیرت ابن اسحاق (۵/۲۴۳) میں ہیں، نیز دیکھئے سیر اعلام النبلاء (۳/۱۷۹-۱۸۲) اور طبقات ابن سعد (۸/۹۱)۔
([16]) سورہ احزاب آیت٥٣۔
([17]) صحیح مسلم کتاب الحيض باب استحباب استعمال المغتسلة من الحيض فرصة من مسك في موضع الدم (کتاب نمبر۳ باب نمبر ۱۳ حدیث نمبر ۶۱ (۳۳۲)۔
([18]) ملاحظہ ہو آداب الزفاف (صفحہ۱۰۹) اور اس کے بعد۔
([19]) یہ حدیث صحیح بخاری وصحیح مسلم میں مروی ہے۔ صحیح بخاری میں متعدد مقامات پر ہے،كتاب الوضوء, باب التَّسْمِيَةِ عَلَى كُلِّ حَالٍ وَعِنْدَ الْوِقَاعِ(کتاب نمبر۴ باب نمبر۸ حدیث نمبر۱۴۱), كتاب بدء الخلق , باب صِفَةِ إِبْلِيسَ وَجُنُودِهِ (کتاب نمبر۶۳ باب نمبر۱۱ حدیث نمبر۳۰۹۸), كتاب الدعوات باب مَا يَقُولُ إِذَا أَتَى أَهْلَهُ(کتاب نمبر۸۳ باب نمبر۵۴ حدیث نمبر۶۰۲۵), كتاب التوحيد باب السُّؤَالِ بِأَسْمَاءِ اللَّهِ تَعَالَى وَالِاسْتِعَاذَةِ بِهَا(کتاب نمبر۱۰۰ باب نمبر۱۳ حدیث نمبر۶۹۶۱), صحیح مسلم میں یہ حدیث كتاب النكاح باب مَا يُسْتَحَبُّ أَنْ يَقُولَهُ عِنْدَ الْجِمَاعِ (کتاب نمبر۱۶ باب نمبر۱۸ حدیث نمبر۱۱۶ (۱۴۳۴)) میں ہے۔
([20]) یہ حدیث ابوداود کتاب الحمام باب ما جاء فی التعري (کتاب نمبر۲۵ باب نمبر۳ حدیث نمبر۴۰۱۷), ترمذی کتاب الادب باب حفظ العورۃ (کتاب نمبر۴۴ باب نمبر۲۲ حدیث نمبر۲۷۶۹), اورابن ماجہ کتاب النکاح باب التستر عند الجماع (کتاب نمبر۹ باب نمبر۲۸ حدیث نمبر۱۹۲۰) میں مروی ہے اور علامہ البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہوں مذکورہ کتب بحاشیۃ الالبانی)
([21])  سورہ بقرة آیت٢٢٣۔
([22]) اسے امام ترمذی نے کتاب تفسير القرآن باب تفسير سورة البقرة (کتاب نمبر۴۸ باب نمبر۳ حدیث نمبر۲۹۸۰) میں روایت کیا ہے اور حسن قرار دیا ہے نیز علامہ البانی نے تحسین میں ان کی موافقت کی ہے۔  (ملاحظہ ہو مذکورہ کتاب بحاشیۃ الالبانی)
([23]) یہ حدیث ابوداود کتاب الطب باب في الكهان (کتاب نمبر۲۲ باب نمبر۲۱ حدیث نمبر۳۹۰۴), ترمذی کتاب الطهارة باب كراهة إتيان الحائض (کتاب نمبر۱ باب نمبر۱۰۲ حدیث نمبر۱۳۵), اورابن ماجہ کتاب الطهارة وسننها باب النهي عن إتيان الحائض (کتاب نمبر۱ باب نمبر۱۲۲ حدیث نمبر۶۳۹) میں مروی ہے اور علامہ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہوں مذکورہ کتب بحاشیۃ الالبانی)
([24])حیض(monthly period) اس کالے گاڑھے بدبو دار خون کو کہتے ہیں جو بالغ عورت کی بچہ دانی سے عموماً ہرماہ کم ازکم ایک دن اور ایک رات اور عام طور سے چھ یا سات دن اور زیادہ سے زیادہ پندرہ دن تک نکلتا ہے اور نفاس اس خون کو کہتے ہیں جو حاملہ عورت سے ولادت کے ساتھ یا اس سے ایک دن یا دو دن یا تین دن پہلے سے نکلتا ہے اور زیادہ سے زیادہ چالیس دن تک جاری رہتا ہے، واضح رہے کہ نفاس کے لئے کم ازکم کی کوئی مدت متعین نہیں، چند گھنٹوں میں بھی ختم ہوسکتا ہے اور چند دنوں میں بھی۔ حیض ونفاس کی حالت میں صحبت کرنے سے بہت سی بیماریوں کے اندیشے اور خطرات ہوتے ہیں نیز اس سے عورتوں کی اندام نہانی میں شدید درد پیدا ہوتا ہے، کبھی رحم کے اندر بیضہ دانی یا مقعد میں تیز سوزش اور جلن ہوتی ہے جس کی وجہ سے بیحد تکلیف ہوتی ہے۔ بسا اوقات بیضہ دانی خراب ہوجاتی ہے اور بانجھ پن پیدا ہوجاتا ہے۔ اسی طرح یہ خطرہ بھی ہوتا ہے کہ حیض کا فاسد مواد مرد کے عضو تناسل میں پیوست ہوجائے جس کے سبب پیشاب کی نالی میں آتشک، سوزاک اور شدید جلن پیدا ہوجائے۔ کبھی یہ زہر خصیہ تک پہنچ کر سخت تباہی کا باعث ہوتا ہے۔ دنیا کے تمام حکیم اور ڈاکٹر حیض کی مدت میں بیوی سے جماع سے گریز کرنے کی تاکید کرتے ہیں۔
([25]) یہ حدیث ابوداود کتاب النكاح باب ما يقال للمتزوج (کتاب نمبر۶ باب نمبر۳۷ حدیث نمبر۲۱۳۰), ترمذی کتاب النكاح باب فيما يقال للمتزوج (کتاب نمبر۹ باب نمبر۷ حدیث نمبر۱۰۹۱)اورابن ماجہ کتاب النكاح باب تهنئة النكاح (کتاب نمبر۹ باب نمبر۲۳ حدیث نمبر۱۹۰۵) میں مروی ہے اور علامہ البانی نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہوں مذکورہ کتب بحاشیۃ الالبانی)
([26]) یہ حدیث صحیح مسلم میں كتاب النكاح باب تحريم إفشاء سر المرأة (کتاب نمبر۱۶ باب نمبر۲۱ حدیث نمبر۱۲۳ (۱۴۳۷)) میں مروی ہے۔
([27]) یہ حدیث مسند احمد (جلد۶ صفحہ ۴۵۶ حدیث نمبر ۲۷۶۲۴) اور سنن ابوداود کتاب النکاح باب مَا يُكْرَهُ مِنْ ذِكْرِ الرَّجُلِ مَا يَكُونُ مِنْ إِصَابَةِ أَهْلِهِ (کتاب نمبر۱۲ باب نمبر۵۰ حدیث نمبر۲۱۷۶) میں مروی ہے، علامہ البانی نے آداب الزفاف (صفحہ۱۴۴) میں فرمایا ہے کہ یہ حدیث اپنے شواہد کی بنیاد پر صحیح ہے یا کم ازکم حسن ہے۔
([28])  تفصیل کے خواہشمند ہماری کتاب ((اسلامی حقوق وآداب)) نیز (( بیوی اور شوہر کے حقوق)) کا مطالعہ کریں۔
([29]) یہ حدیث صحیح مسلم میں كتاب الطهارة باب السواك (کتاب نمبر۲ باب نمبر۱۵ حدیث نمبر۴۳ (۲۵۳)) میں مروی ہے۔
([30]) یہ حدیث سنن ابن ماجہ  میں كتاب النكاح باب حق الزوج على المرأة (کتاب نمبر۹ باب نمبر۴ حدیث نمبر۱۸۵۳) میں مروی ہے اور علامہ البانی نے اسے حسن صحیح قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہو مذکورہ کتاب بحاشیۃ الالبانی)
([31])  یہ حدیث صحیح بخاری وصحیح مسلم میں مروی ہے۔ صحیح بخاری میں دو مقامات پر ہے،كتاب بدء الخلق, باب إذا قال أحدكم آمين والملائكة في السماء فوافقت إحداهما الأخرى غفر له ما تقدم من ذنبه (کتاب نمبر۶۳ باب نمبر۷ حدیث نمبر۳۰۶۵), كتاب النكاح , باب إذا باتت المرأة مهاجرة فراش زوجها (کتاب نمبر۷۰ باب نمبر۸۵ حدیث نمبر۴۸۹۷،۴۸۹۸), صحیح مسلم میں یہ حدیث كتاب النكاح باب تحريم امتناعها من فراش زوجها (کتاب نمبر۱۶ باب نمبر۲۰ حدیث نمبر۱۲۰ (۱۴۳۶)) میں ہے۔
([32])  جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ عورت جب خواہش کرے اور مرد نہ آئے تو اس پر کوئی وعید شریعت میں کیوں نہیں آئی ہے ایسے لوگوں کو نہ ہی شریعت کا علم ہے اور نہ ہی مردوعورت کی نفسیات سے واقفیت۔ واقعہ یہ ہے کہ مرد جنسی کشش کی طرف کھنچنے کے معاملہ میں بڑا کمزور واقع ہوا ہے، عورت اپنی ناز وادا سے اسے چند ہی لمحوں میں اپنی زلف گرہ گیر کا اسیر اور اپنی بانہوں کا قیدی بناسکتی ہے اس کے باوجود اسلامی شریعت نے لازم کیا ہے  کہ مرد اپنی طاقت اور بیوی کی حاجت کے مطابق اس کا حق ادا کرے۔ ارشاد باری ہے : ﴿وَلَنْ تَسْتَطِیْعُوْا أَنْ تَعْدِلُوْا بَیْنَ النِّسَآءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلَا تَمِیْلُوْا کُلَّ الْمَیْلِ فَتَذَرُوْهَا کَالْمُعَلَّقَةِالنساء/١٢٩ (اگر تم اپنی بیویوں کے درمیان کما حقہ عدل کرنا چاہو بھی تو ایسا ہرگز نہ کرسکو گے لہذا یوں نہ کرنا کہ ایک بیوی کی طرف تو پوری طرح مائل ہوجاؤ اور باقی کو لٹکتا چھوڑدو)۔
            ”لٹکتا“  کا مفہوم یہ ہے کہ نہ ہی وہ خالی ہے کہ دوسری شادی کرسکے اور نہ ہی شوہر والی رہ جاتی ہے کیونکہ اس کا حق اسے نہیں دیا جارہا ہے۔
            واضح رہے کہ جس طرح نبی اکرم e کا یہ حکم ہے کہ اگر شوہر کا حق فوت ہورہا ہو تو عورت نفلی عبادتوں میں مشغول نہیں ہوسکتی اسی طرح آپ کا یہ بھی حکم ہے کہ شوہر بھی اس وقت نفلی عبادت میں مشغول نہیں ہوسکتاجب اس کی وجہ سے بیوی کے حقوق کی ادائیگی میں غفلت ہورہی ہو۔ عبد اﷲ بن عمرو بن عاص t بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ e نے فرمایا : اے عبد اﷲ ! کیا مجھے یہ خبر صحیح پہنچی ہے کہ تم دن کو صوم رکھتے ہو اور پوری رات قیام کرتے ہو ؟ انھوں نے کہا : سچ ہے اے اﷲ کے رسول ! آپ نے فرمایا: ایسا نہ کرو، صوم رکھو اور نہ بھی رکھو، سوؤ اور تہجد بھی پڑھو، کیونکہ تم پر تمھارے جسم کا حق ہے، تمھاری آنکھوں کا حق ہے، تمھاری بیوی کا حق ہے، اور تم سے ملنے والوں کا حق ہے۔ تمھارے لئے ہر ماہ میں تین دن صوم رکھنا کافی ہے کیونکہ ہر نیکی کا ثواب دس گنا ملتا ہے، اس طرح پورے سال کے صوم کا تمھیں ثواب مل جائے گا۔ (متفق علیہ)
            اسلامی شریعت کا ایک دستور یہ بھی ہے کہ اگر شوہر اپنی بیوی کے قریب نہ جانے کی قسم کھالے تو اسے قسم توڑنا لازم ہے۔
([33]) یہ حدیث صحیح مسلم میں كتاب الزكاة باب بيان أن اسم الصدقة يقع على كل نوع من المعروف (کتاب نمبر۱۲ باب نمبر۱۶ حدیث نمبر۵۳ (۱۰۰۶)) میں مروی ہے۔
([34]) سورہ مومنون آیت: ٥۔٧۔
([35]) لواطت واغلام بازی وہ خطرناک جرم ہے جس کے سبب اﷲ تعالی نے قوم لوط کو چار مختلف قسم کی سزائیں دیں۔ (١) ان کی بینائی ختم کردی (٢) ان کی بستی کو الٹ دیا (٣) ان پر کنکریلے تہہ بہ تہہ پتھروں کی بارش کی (٤)ان پر چیخ کا عذاب بھیجا۔اسلامی شریعت میں اغلام بازی کرنے والے اور کروانے والے کی سزا یہ ہے کہ دونوں کو تلوار سے قتل کردیا جائے۔
     مشت زنی بھی انسان کے دین وایمان اور صحت وتوانائی کے لئے انتہائی مضر ہے۔
([36])  یہ حدیث صحیح بخاری وصحیح مسلم میں مروی ہے۔ صحیح بخاری میں تین مقامات پر ہے، كتاب النكاح , باب قول النبي صلى الله عليه و سلم ( من استطاع منكم الباءة فليتزوج (کتاب نمبر۷۰ باب نمبر۲ حدیث نمبر۴۷۷۸), كتاب النكاح , باب من لم يستطغ الباءة فليصم (کتاب نمبر۷۰ باب نمبر۳ حدیث نمبر۴۷۷۹), كتاب الصوم , باب الصوم لمن خاف على نفسه العزوبة (کتاب نمبر۳۶ باب نمبر۱۰ حدیث نمبر۱۸۰۶), صحیح مسلم میں یہ حدیث كتاب النكاح باب استحباب النكاح لمن تاقت نفسه إليه ووجد مؤنة واشتغال من عجز عن المؤن بالصوم (کتاب نمبر۱۶ باب نمبر۱ حدیث نمبر۱ (۱۴۰۰)) میں ہے۔
([37]) یہ حدیث ترمذی کتاب فضائل الجهاد باب ما جاء في المجاهد والناكح والمكاتب وعون الله إياهم (کتاب نمبر۲۳ باب نمبر۲۰ حدیث نمبر۱۶۵۵), اور نسائی کتاب النكاح باب معونة الله الناكح الذي يريد العفاف (کتاب نمبر۲۶ باب نمبر۵حدیث نمبر۳۲۱۸), میں مروی ہے اور علامہ البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔ (ملاحظہ ہوں مذکورہ کتب بحاشیۃ الالبانی)
([38]) سورہ طلاق آیت: ٢۔٣ ۔
([39]) یہ حدیث صحیح بخاری میں ہے، کتاب التعبير، باب تعبير الرؤيا بعد صلاة الصبح (کتاب نمبر۹۵ باب نمبر۴۸حدیث نمبر۶۶۴۰)۔
([40]) اس موضوع پر خاطرخواہ استفادہ کے لئے ((نفسانی خواہشات سے نجات کے ذرائع)) نامی کتابچہ کا ضرور مطالعہ کریں جو امام ابن قیم رحمہ اللہ کی ایک نادر تحریر ہے اور ناچیز نے اسے اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔